1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستانی وکلاء کے لانگ مارچ کی تیاریاں عروج پر

امتیاز گل ، اسلام آباد10 مارچ 2009

پنجاب میں گورنر راج کے تسلسل پر نواز لیگ کی ناراضگی اور وکلاء کے لانگ مارچ میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کی شرکت پر اصرار نےحکومت اور اپوزیشن کے درمیان مصالحتی کوششوں میں تیزی پیدا کر دی ہے۔

https://p.dw.com/p/H9Ky
وکلاء کے لانگ مارچ کی کال کا نواز لیگ نے بھرپور ساتھ دینے کا اعلان کیا ہےتصویر: AP

دوسری طرف وفاقی حکومت گزشتہ روز سے وکلاء مارچ اور 16 مارچ کو اسلام آباد میں دھرنے کی پیش بندی کےلئے زبردست انتظامی اقدامات کا عندیہ بھی دے رہی ہے۔ ایک طرف مشیر داخلہ رحمان ملک نے شریف برادران کے خلاف بغاوت کے مقدمے کا امکان ظاہر کیا ہے تو دوسری جانب مارچ کے لئے سرگرم مسلم لیگی، جماعت اسلامی کے ارکان اور وکلاء کی گرفتاری کے اشارے بھی دئے جا رہے ہیں اور اس مقصد کے لئے وزارت داخلہ نے مبینہ طور پر ایک فہرست بھی تیار کرلی ہے۔

وزارت داخلہ ہی کے ذرائع کے مطابق معزول چیف جسٹس افتخار چوہدری کو دھرنے میں شرکت سے روکنے کےلئے مکمل طور پر نظربند یا کوئٹہ منتقل کرنے کا منصوبہ بھی بنایا گیا ہے۔ جسٹس افتخار چوہدری کے ترجمان اطہر من اللہ کا کہنا ہے کہ اگر افتخار چوہدری کے ساتھ زبردستی کی گئی تو اس کے اچھے نتائج برآمد نہیں ہوں گے۔

اطہر من اللہ کا کہنا تھا:’’اگر کوئی چیف جسٹس کے گھر میں گھسنے کی کوشش کرتا ہے تو یہ اس قوم کے ساتھ ایک بڑا مذاق ہو گا لیکن کوئی چیف جسٹس کے گھر کے اندر گھسنے کی ہمت نہیں کرسکتا اور اگر کسی نے ان کے گھر میں گھسنے کی جرأت کی تو اس کے تمام نتائج ان کو بھگتنا پڑیں گے اور اس جرم کی تمام تر ذمہ داری آصف علی زرداری اور رحمان ملک پر عائد ہو گی۔‘‘

خیال رہے کہ وکلاء مارچ کچلنے کے لئے پیش پیش مشیر داخلہ رحمان ملک پر اس وقت پنجاب اسمبلی میں سیاسی وفاداریاں خریدنے کا الزام بھی ہے۔

شہباز شریف نے یہ الزام بھی لگایا ہے کہ رحمان ملک انٹیلی جینس بیورو کے 50 کروڑ روپے کی مدد سے نواز اور ق لیگ کے ارکان کو پنجاب اسمبلی میں پیپلز پارٹی کی حمایت پر آمادہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن رحمان ملک نے منگل کے روز ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے شہباز شریف کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا اعلان کیا۔

مبصرین کے مطابق رحمان ملک اور بعض وفاقی وزراء کے بیانات سے قطع نظر گزشتہ دو روز سے یہ امر خاصا واضح ہو گیا ہے کہ حکومت پنجاب میں گورنر راج ، ارکان اسمبلی کی وفاداریاں بدلنے اور وکلاء مارچ کو روکنے کے لئے سخت ترین موقف اپنا رہی ہے کیونکہ شریف برادران گورنرراج اور وکلاء مارچ میں شرکت کے معاملے پر تا حال کسی بھی سمجھوتے سے مسلسل گریزاں ہیں۔