1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستانی پناہ گزین، جو پاکستان واپس نہیں جانا چاہتا

20 اکتوبر 2017

پاکستانی مہاجر احتشام حیدر کا کہنا ہے کہ وہ ملک میں علاج کے لیے درکار رقم اور غیرمعیاری طبی سہولیات کے تناظر میں وطن واپس نہیں جانا چاہتا۔

https://p.dw.com/p/2mEEM
Berlin Ehtesham Haider, Flüchtling aus Pakistan
تصویر: DW/I. Aftab

احتشام حیدر کا تعلق پاکستان کے صوبہ پنجاب میں ضلع گجرانوالہ کی تحصیل وزیرآباد سے ہے۔ وزیرآباد کے متوسط گھرانے سے تعلق رکھنے والے نوجوان نے پاکستان میں بیچلرز تک تعلیم حاصل کی ہے۔ کالج میں روز مرہ کے لڑائی جھگڑے جب جانی دشمنی بن گئے تو انہوں نے پاکستان چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ احتشام کے مطابق ان پر قاتلانہ حملہ کیا گیا تھا، جس میں ان کے بھائی کو گولی بھی لگی تھی۔

یونان: 14 مغوی پاکستانی تارکین وطن رہا کرا لیے گئے

سربیا میں پھنسے نوجوان، اسکول لوٹیں تو کیسے

رومانیہ: زبردستی سرحد عبور کرنے والے مہاجرین پر فائرنگ


دو سال قبل احتشام مقامی ایجنٹ کو چھ لاکھ پاکستانی روپے یعنی تقریباﹰ 6500 یورو ادا کرکے ایران، ترکی اور بلغاریا کے راستے جرمنی پہنچے تھے۔ جرمن سرزمین پر پہنچتے ہی انھوں نے جرمن اہلکاروں کو اپنی بیماری کی اطلاع دے دی تھی۔ جب ان کے خون کے نمونے لیے گئے تو ’ہیپاٹائٹس سی‘ کے ساتھ ’تھیلیسیمیا’ بیماری کا انکشاف بھی ہوا۔

بعد ازاں ڈاکٹر نےاحتشام کو تھیلیسیمیا بیماری کے اسپیشلسٹ سے رجوع کرنے کی درخواست کی۔ ڈاکٹرز نے فوری طور پر ہدایات جاری کی گئیں کہ ان کو مہاجر کیمپ سے تارکین وطن کی خصوصی رہائش گاہ میں کمرہ دیا جائے۔ احتشام کے مطابق ان کو فوری طور پر کمرہ نہیں مل سکا، جس کی سب سے بڑی پاکستانی مترجم ہیں جو جرمن اہلکاروں کو ان کے مسائل واضح طور پر بیان نہیں کرتے۔ احتشام جرمن حکومت کا شکرگزار ہے کہ انہوں نے،’’مفت میں نہ صرف مہنگا، بلکہ اتنا معیاری علاج کیا ہے۔‘‘

احتشام کی سیاسی پناہ کی درخواست مسترد ہو چکی ہے۔ اب وہ جرمن دارالحکومت برلن کے شمالی علاقے بوخ میں مہاجرین کی رہائش گاہ میں اپنی پناہ کی درخواست مسترد ہونے کے بعد اپیل کے نتیجے کے منتظر ہے۔

پاکستان محفوظ ملک نہیں، پاکستانی مہاجر

ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں احتشام کا مزید کہنا تھا کہ وہ بہت سے خواب لیے جرمنی آئے تھے، مگر یہاں سب کچھ تبدیل ہو گیا۔ انہوں نے کہا کہ وہ پاکستان نہیں جانا چاہتے کیوں کہ وہ وہاں نہ تو علاج پر خرچ ہونے والی رقم ادا کر سکتے ہیں اور نہ ہی وہاں معیاری علاج ہوگا۔