1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستانی کسانوں کا لانگ مارچ کا اعلان

تنویر شہزاد، لاہور16 فروری 2015

پاکستانی کاشتکار آج کل اپنے مسائل کے حل کے لیے احتجاجی مظاہرے کر رہے جبکہ ملکی کسانوں کی ایک بڑی تنظیم کسان بورڈ نے دیگر کسان تنظیموں کے ساتھ مل کر یکم اکتوبر کو اسلام آباد کی طرف احتجاجی لانگ مارچ کا اعلان کر دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1EcYr
تصویر: Tanvir Shahzad

ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کسان بورڈ پاکستان کے مرکزی صدر صادق خان خاکوانی نے بتایا کہ بڑھتے ہوئے زرعی مسائل کی وجہ سے دیہات میں بسنے والی ملک کی 70 فیصد آبادی شدید مشکلات کا شکار ہے اور ان مسائل کی وجہ سے پاکستانی زراعت تیزی سے غیر منفعت بخش کاروبار بنتی جا رہی ہے۔ ’’ہم آج کل ملک کے مختلف علاقوں میں کسان کنونشن منعقد کر رہے ہیں، ہم نے یکم اکتوبر کو صادق آباد سے اسلام آباد کی طرف احتجاجی لانگ مارچ شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس لانگ مارچ میں تمام کسان تنظیموں اور سیاسی جماعتوں کے کسان ونگز سے وابستہ ہزاروں کاشتکار شریک ہوں گے۔‘‘

ایک سوال کے جواب میں کسان بورڈ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ پاکستان میں زرعی فصلوں کی پیداواری لاگت بہت بڑھ چکی ہے جبکہ مارکیٹ میں ان فصلوں کی قیمتیں کمی کا شکار ہیں۔ ’’اس لیے ہمارا مطالبہ ہے کہ حکومت بھارت کی طرح پاکستان میں بھی تمام اہم زرعی اجناس کی امدادی قیمت مقرر کرے۔ ہم چاہتے ہیں کہ حکومت کاشتکار تنظیموں کے مشورے سے فصلوں کی کاروباری لاگت طے کرے اور اس میں 20 فیصد منافع اور پانچ فیصد انشورنس چارجز شامل کر کے فصلوں کی امدادی قیمت مقرر کی جائے۔‘‘

صادق خاکوانی کہتے ہیں کہ کسانوں کا دوسرا مطالبہ یہ ہے کہ حکومت کسانوں کو فلیٹ ریٹس پر بجلی مہیا کرے۔ اس کے علاوہ کسانوں کو بینک دولت پاکستان کی ہدایات کے مطابق بلا سود قرضے مہیا کیے جائیں اور کھاد اور بیجوں سمیت تمام زرعی inputs (مداخلات) پر جنرل سیلز ٹیکس بھی ختم کیا جائے۔

کاشتکاروں کی ایک اور معروف تنظیم ایگری فورم پاکستان کے سربراہ ابراہیم مغل نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ فصلوں کی پیداواری لاگت کے باعث چھوٹے کاشتکاروں کے لیے کھادوں کا مناسب مقدار میں استعمال ممکن نہیں رہا۔ اس لیے پاکستان میں فی ایکڑ پیداوار بھی بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔ ان کے بقول ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ پاکستان میں حکومت کی عدم توجہ کی وجہ سے کاشتکاروں کی ضروریات کے مطابق زرعی تحقیق بھی نہیں ہو رہی۔

’’مارکیٹ کا حال یہ ہے کہ زرعی اجناس پیداواری لاگت پر نہیں بک رہیں، آلو آج کل پندرہ بیس روپے کلو بک رہا ہے۔ ابھی ذخیرہ اندوز اسے لے کر سٹور کر رہے ہیں۔ چند ماہ بعد یہ ساٹھ روپے کلو بک تو جائے گا لیکن کاشتکار کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔ کاشتکاروں کے پاس سٹوریج کی سہولت نہ ہونے کے باعث 25 فیصد پھل اور 35 فیصد سبزیاں ضائع ہو جاتی ہیں۔ پاسکو، محکمہ خوراک اور ٹی سی پی والے بااثر زمینداروں کی خدمت میں لگے رہتے ہیں۔ عام کسان کا برا حال ہے۔‘‘

Mais Pakistan Ernte
’پاکستان میں زرعی اجناس پیداواری لاگت پر بھی نہیں بک رہیں‘تصویر: Arif Ali/AFP/Getty Images

ابراہیم مغل نے بتایا کہ پچھلے سال باسمتی چاول 2600 روپے فی من تک بھی بکا تھا لیکن اس مرتبہ اس کی قیمت 1300 روپے تک گر گئی ہے۔ اسی طرح دیگر اجناس کی قیمتیں بھی گر گئی ہیں۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ قیمت کی اس کمی کا کوئی فائدہ صارف کو نہیں پہنچ رہا۔

گنے کی فصل کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ گنے کی فصل سیاسی ہو چکی ہے۔ پیپلز پارٹی کے آصف زرداری، مسلم لیگ نون کے نواز شریف اور تحریک انصاف کے جہانگیر ترین سمیت کئی اہم سیاست دانوں نے شوگر ملیں لگا رکھی ہیں۔ جب سے سیاست دان اس بزنس میں آئے ہیں، کسانوں کا بری طرح استحصال ہو رہا ہے۔ پچھلے کئی سالوں کی طرح اس سال بھی شوگر ملیں وقت پر نہیں چلائی گیئں۔ گنے کی قیمت 180 روپے کی بجائے 150 روپے بھی نہیں دی جا رہی۔ ملوں والے کہتے ہیں کہ نقد رقم لینی ہے تو سستے داموں فصل دو، ورنہ ادائیگی کے لیے چھ ماہ انتظار کرو۔ چک جھمرا کے علاقے میں تو ایک شوگر مل کے اہلکاروں کی طرف گنے کے وزن میں ہیر پھیر کرنے پر اعتراض کرنے والے ایک کاشتکار کو گولی مار کر ہلاک بھی کر دیا گیا تھا۔ چند روز قبل ننکانہ صاحب کے علاقے میں بھی پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف کے ایک قریبی عزیز کی ایک شوگر مل سے واجبات کی وصولی کے لیے کسانوں کی طرف سے احتجاجی مظاہرہ بھی کیا گیا۔ ان کے بقول گنے کی 200 ارب روپے کی موجودہ فصل میں سے 125 ارب روپے کی فصل خریدی جا چکی ہے لیکن اس میں سے اب تک کسانوں کو صرف 30 ارب روپے ادا کیے گئے ہیں۔

پنجاب حکومت کے محکمہ زراعت کے ترجمان توصیف صبیح نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ حکومت کاشتکاروں کو بجلی کی مد میں 22 ارب روپے کی سبسڈی دے رہی ہے اور پچھلے سال کاشتکاروں کے لیے بجلی کا ریٹ کم کر کے 10.35 روپے مقرر کیا گیا تھا۔ ان کے بقول حکومت نے کھادوں کی مد میں بھی کاشتکاروں کو 14 ارب روپے کی سبسڈی دینے کا فیصلہ کیا ہے لیکن کھاد بنانے والی کمپنیاں اس قیمت کو اپنے تیار کردہ کھاد کے تھیلوں پر چھاپنے سے انکاری ہیں (جو حکومت اس لیے چاہتی ہے کہ یہ سبسڈی متعلقہ مستحق کسانوں تک پہنچے)، اس وجہ سے یہ معاملہ قدرے تاخیر کا شکار ہو رہا ہے۔

ایک کاشتکار محمد مختار نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ جب تک تجارتی اور صنعتی طبقوں کے لوگ حکومت میں ہیں، اسے نہیں لگتا کہ کاشتکاروں کے مسائل کےحل کے سلسلے میں کوئی مؤثر پیش رفت ہو سکے گی۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید