1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پناہ کے متلاشیوں میں 105 سالہ افغان خاتون بھی شامل

شمشیر حیدر29 اکتوبر 2015

کروشیائی پولیس کے مطابق یہ خاتون منگل کے روز سربیا کی سرحد کے قریب واقع پناہ گزینوں کے کیمپ میں پہنچی ہے۔ خیال رہے کہ یورپ میں افغان مہاجرین کو پناہ دینے سے متعلق قوانین سخت کیے جا رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1Gwpw
Griechenland, Flüchtlinge an der Grenze zu Mazedonien
تصویر: picture-alliance/dpa/N. Arvanitidis

یورپ کا سرد موسم اور غیر قانونی طور پر یورپ پہنچنے کا دشوار گزار سمندری اور زمینی راستہ نوجوان مہاجرین کے لیے بھی آسان نہیں لیکن اسی راستے پر سفر کرتے ہوئے افغانستان سے تعلق رکھنے والی ایک سو پانچ سالہ خاتون بھی کروشیا پہنچی ہے۔

یورپ پہنچنے والے مہاجرین میں زیادہ تر مرد شامل ہیں، جو بہتر زندگی کی تلاش میں یورپ کا رخ کر رہے ہیں۔ تاہم عورتوں اور بچوں کے ساتھ سفر کرنے والے خاندانوں کی نمایاں تعداد بھی انہی راستوں سے ہوتے ہوئے یورپ پہنچی ہے۔ تاہم اب تک یورپ میں پہنچنے والے پناہ گزینوں میں یہ خاتون سب سے زیادہ عمر رسیدہ ہے۔

کروشیائی حکومت کے ترجمان کے مطابق حکام مہاجرین کے ایک گروہ کے ساتھ کروشیا پہنچنے والی اس خاتون کی صحت کا جائزہ لے رہے ہیں جس کے بعد اسے مزید طبی امداد مہیا کیے جانے کے حوالے سے فیصلہ کیا جائے گا۔

زغرب حکومت کے مطابق ستمبر کے وسط سے لے کر اب تک کروشیا کی حدود میں دو لاکھ ساٹھ ہزار سے زائد پناہ گزین پہنچے۔ ان مہاجرین میں بچوں، بوڑھوں اور بیمار افراد کی بھی ایک قابل ذکر تعداد موجود ہے۔

رواں برس یورپ پہنچنے والے مہاجرین میں افغانی مہاجرین کی تعداد شامی پناہ گزینوں کے بعد دوسرے نمبر ہے۔ گزشتہ روز جرمن وزیر داخلہ تھوماس ڈے میزیئر نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ جرمنی میں افغان مہاجرین کی بڑھتی ہوئی تعداد قبول نہیں کی جا سکتی۔ انہوں نے نوجوان افغان مہاجرین پر زور دیا تھا وہ اپنے وطن لوٹ جائیں اور وہاں جا کر ملک کی ترقی میں کردار ادا کریں۔

کروشیائی حکومت کے ترجمان کے مطابق گزشتہ چند دنوں کے دوران روزانہ کی بنیاد پر ان کی ملکی حدود میں داخل ہونے والے مہاجرین کی تعداد میں ایک سے دو ہزار افراد تک کی کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ تاہم انہوں نے اس خدشے کا اظہار بھی کیا کہ پناہ گزینوں کی آمد میں دوبارہ اضافہ ہو سکتا ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید