1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ڈی جی رینجرز اورآئی جی سندھ کے تبادلے کاحکم

10 جون 2011

پاکستان کی سپریم کورٹ نے کراچی میں رینجرز اہلکاروں کی فائرنگ سے سرفراز شاہ کی ہلاکت کی غیر جانب دارانہ تحقیقات یقینی بنانے کے لیے سندھ پولیس کے انسپکٹر جنرل اور سندھ رینجرز کے سربراہ کے تبادلے کا حکم دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/11Y3F
تصویر: AP

چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے اس واقعہ پر ازخود نوٹس لیا تھا۔ جمعے کے روز چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اب تک ہونے والے اقدامات سے بظاہر یہ تاثر ملتا ہے کہ سندھ پولیس کے سربراہ فیاض طورو اور رینجرز کے سربراہ میجر جنرل اعجاز کی موجودگی میں اس معاملے کی شفاف تحقیقات ممکن نہیں۔

دوسری جانب جمعے کو کراچی کی ایک عدالت نے زیرحراست دونوں رینجرز اہلکاروں شاہد ظفر اور محمد افضل کو ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا ہے۔ پولیس کے ایک اعلیٰ اہلکار طارق دھاریجو کے بقول ان اہلکاروں کو سیشن کورٹ میں پیش کیا گیا جہاں ان کو پانچ روزہ ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا گیا ہے۔

Unruhen Karachi Mord Politiker Pakistan
پاکستانی رینجرز نے ایک نہتے نوجوان سرفراز شاہ کو کراچی میں گولیاں مار کر ہلاک کر دیا تھاتصویر: AP

قبل ازیں پاکستانی حکام نے سرفراز شاہ کی ہلاکت کی مکمل تحقیقات کا حکم جاری کیا تھا۔ پاکستانی رینجرز نے ایک نہتے نوجوان سرفراز شاہ کو کراچی میں گولیاں مار کر ہلاک کر دیا تھا۔

پاکستانی وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران کہا کہ اس واقعہ کی مکمل تحقیقات کی جائیں گی اور ذمہ دار افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ اس معاملے کی تحقیقات کی وہ خود نگرانی کریں گے۔

سرفراز شاہ کی ہلاکت کا واقعہ بدھ کی شام کراچی میں بےنظیر بھٹو پارک کلفٹن کے علاقے میں پیش آیا۔ مقامی میڈیا کے مطابق قتل کے اس واقعہ کے بعد رینجرز نے مقامی تھانے میں ایف آئی آر بھی درج کروا دی تھی کہ ایک مسلح شخص پولیس مقابلے میں مارا گیا ہے اور اس کے قبضے سے اسلحہ برآمد کروا لیا گیا ہے۔

سرفراز شاہ کے گھر والوں نے اپنے عزیز کی ہلاکت کو ماورائے عدالت قتل کا نام دیا ہے۔ سرفراز کے بھائی سالک شاہ نے بتایا،’ میرے بھائی کا قصور صرف اتنا تھا کہ گھر میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کے باعث وہ اس پارک میں گھوم رہا تھا‘۔

انسانی حقوق کے سرکردہ کارکنان نے اس قتل کے واقعہ کی شدید مذمت کی ہے۔ پاکستان میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے علی دایان حسن کے بقول اس واقعہ سے واضح ہو گیا ہے کہ پاکستان میں فوج، پیرا ملٹری فورسز اور خفیہ ادارے کس طرح جرائم کے مرتکب ہوتے ہیں۔

رپورٹ: امتیاز احمد

ادارت: افسر اعوان

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں