1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کبھی پھولوں کا شہر لیکن اب بموں کا

21 دسمبر 2009

’’ہر روز جب میں صبح کو گھر سے یونیورسٹی کے لئے نکلتا ہوں تو کبھی کبھی آنکھوں ہی آنکھوں میں محسوس ہونے لگتا ہے کہ شاید یہ گھروالوں سے میری آخری ملاقات اور آخری خدا حافظ ہو۔ لیکن اب خطرات ہماری زندگی کا معمول بن چکے ہیں۔‘‘

https://p.dw.com/p/LAAW
پشاور میں ایک بم دھماکے کے بعد کا منظرتصویر: picture-alliance/dpa

یہ پروفیسر شاہ جہاں سید کے الفاظ ہیں، جو پشاور میں قائم یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغیات کے سربراہ ہیں اور ان دنوں جرمنی کے دورے پر ہیں۔

پاکستان کا شمال مغربی سرحدی صوبہ تحریک طالبان پاکستان کا گڑھ تصور کیا جاتا ہے۔ اس صوبے کے مختلف علاقوں میں خود کش حملے اور بم دھماکے ایک معمول بن کر رہ گئے ہیں۔

Global Media Forum Teilnehmer Shah Jehan Sayed
پروفیسر شاہ جہاں سید، پشاور یونیورسٹیتصویر: GMF

ان تمام تر مشکلات اور خطرات کی موجودگی میں اس صوبے میں رہنے والے عام شہری اپنی روزمرہ کی زندگی کیسے گزارتے ہیں؟ اس حوالے سے صوبہ سرحد کے دارالحکومت پشاور میں قائم یونیورسٹی میں میڈیا ڈپارٹمنٹ کے سربراہ پروفیسر شاہ جہاں سید کہتے ہیں کہ اب اُن کے صوبے کے لوگوں کے لئے پرُ تشّدد واقعات معمول کی زندگی کا حصّہ بن کر رہ گئے ہیں۔’’تاریخی لحاظ سے پشاور کو پھولوں کا شہر کہا جاتا تھا لیکن بدقسمتی سے افغان جنگ کے بعد سن 1980ء کی دہائی میں بھی صورتحال ایسی ہی تھی، جب پشاور کو بموں کا شہر کہا جانے لگا۔‘‘

ڈوئچے ویلے اُردو سروس سے بات چیت میں پروفیسر شاہ جہاں نے کہا کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں بسنے والے شہری روزمرہ کے خودکش حملوں، بم دھماکوں، اور پرتشّدد واقعات اور دیگر خطرات کے سائے میں اپنی معمول کی زندگی گزارنے کے عادی ہوچکے ہیں۔

Hakimullah Mehsud Taliban Tehrik e Taliban
تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ حکیم اللہ محسودتصویر: picture-alliance/ dpa

پروفیسر شاہ جہاں کہتے ہیں کہ بین الاقوامی سطح پر پشاور کا ’امیج‘ بے حد خراب ہوگیا ہے لیکن اُن کے بقول اب ایسی ہی صورتحال لاہور اور اسلام آباد میں بھی ہے۔

امریکہ اور برطانیہ سمیت دیگر طاقتوں کے شدید دباوٴ کے بعد پاکستانی فوج نے اس سال اپریل میں مالاکنڈ ڈویژن میں طالبان عسکریت پسندوں کے خلاف بڑے پیمانے پر کارروائی کا آغاز کیا۔ فوج کے مطابق اب تک مختلف آپریشنز میں سُوات وادی، بونیر، لوئر دیر اور دیگر ملحقہ اضلاع میں دو ہزار سے زائد عسکریت پسندوں کو ہلاک کیا جا چکا ہے۔

فوج کے اس دعوے کے باوجود ملک کے مختلف شہروں میں خودکش بم حملے ہورہے ہیں، جن میں فوجیوں اور سیکیورٹی فورسز کے علاوہ بڑی تعداد میں عام شہری بھی مارے جاتے ہیں۔

وادی سوات میں آپریشن کے اختتام کے بعد تیس ہزار پاکستانی فوجیوں کو طالبان باغیوں کا مقابلہ کرنے کے لئے قبائلی علاقے جنوبی وزیرستان بھیجا گیا، جہاں آپریشن ’راہ نجات‘ کے تحت عسکریت پسندوں کے خلاف اہم کامیابیوں کے دعوے کئے گئے۔

خودکش حملوں، بم دھماکوں اور فوجی آپریشنز کے نتیجے میں قبائلی علاقوں اور بالخصوص شہر پشاور میں رہنے والے لوگوں کی زندگیوں پر کیا اثرات مرتب ہوئے ہیں؟ پروفیسر شاہ جہاں سید اس حوالے سے کہتے ہیں کہ شہریوں پر زبردست نفسیاتی دباوٴ ہے۔’’ظاہر ہے پرتشّدد واقعات کا اثر تو ہوتا ہے تاہم یہ بم دھماکے گزشتہ تیس برسوں سے ہمارے لئے کوئی نہیں بات نہیں ہے۔ جس طرح لوگ ایک بیماری کے ساتھ زندہ رہنے کے عادی ہوجاتے ہیں، ٹھیک اُسی طرح ہمارے لوگ بموں کے سائے میں زندگی بسر کرنے کے عادی ہوچکے ہیں۔‘‘

رپورٹ: گوہر نذیر گیلانی

ادارت: افسر اعوان