1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کراچی میں جاری سالانہ بین الاقوامی کتاب میلہ

18 دسمبر 2011

کراچی میں جاری سالانہ بین الاقوامی کتاب میلہ اب تک بہت کامیاب ثابت ہو رہا ہے، جس میں جرمن، بھارتی، ترک اور ایرانی کتابوں کی مقبولیت ان کے اسٹالوں پر موجود شائقین کے مسلسل ہجوم سے واضح ہو جاتی ہے۔

https://p.dw.com/p/13V2C
تصویر: DW/Shehzad

آج تیسرے دن بھی ایک جم غفیر اس کتاب میلے کو دیکھنے کے لیے دن بھر موجود رہا اور اس خیال کو غلط ثابت کرتا رہا کہ اب کتابوں کی دنیا محض کتابی رہ گئی ہے۔ پہلی مرتبہ اس میلے میں شرکت کرنے والے جرمنی سے ڈوئچے ویلے شعبہء اردو کے اسٹال پر آنے والے بے شمار مہمانوں میں شہر کے ادیب، دانشور، صحافی، سیاستدان اور مختلف مکتبہ ہائے فکر سے تعلق رکھنے والے لوگ اسی بات کو بار بار دہراتے رہے کہ الیکٹرونک میڈیا کے اس دور میں آج بھی کتاب کی انفرادی حیثیت ہے۔ لہٰذا پڑھنے کیے لیے کسی طور بھی کتاب ملے، وہ پڑھتے ہیں۔

ڈوئچے ویلے کی اردو ویب سائٹ کے بارے میں بھی کچھ ایسے ہی کلمات سننے میں آئے کہ لوگ بار بار کہتے رہے کہ انہیں اس ویب سائٹ سے پڑھنے کو اچھا، بہت معلوماتی اور قابل اعتماد مواد ملتا ہے۔
افتتاحی تقریب میں صوبائی وزیرِ تعلیم نے اپنی تقریر میں خاص طورپر DW کا ذکر کیا کہ ایسے بین الاقوامی اور غیر جانبدار نشریاتی ادارے کا اس میلے میں آنا خوش آئند ہے۔ انہوں نے کہا کہ کتاب ہی تعلیم کا اصل زیور ہے کہ اس کا کوئی متبادل نہیں۔
متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما اور قومی اسمبلی میں اپنی جماعت کے ڈپٹی پارلیمانی لیڈرحیدر عباس رضوی نے ڈوئچے ویلے کے اسٹال کا دورہ کیا اور اس ادارے کے ریڈیو، ٹی وی اور ویب سائٹ کی تعریف کی۔ حیدر عباس رضوی خود بھی ایک شاعر ہیں اور ان کا کہنا تھا کہ DW ایک مستند اور غیر جانبدار ادارہ ہے اور اسی لیے اس کی رپورٹنگ پر پاکستان میں اسے سننے اور پڑھنے والے بھروسہ کرتے ہیں۔
جامعہ کراچی کے شعبہ ابلاغ عامہ کے استاد پروفیسر انعام باری نے کہا کہ ان کا DW سے رشتہ بہت پرانا ہے۔ ان کے کئی ساتھی اور شاگرد اس ادارے سے منسلک رہے ہیں اور پھر ایک سامع کے طور پر تو ان کا DW ریڈیو سروس سے رشتہ عشروں پرانا ہے۔ ان کا یہ بھی خیال تھا کہ دوسرے بین الاقوامی چینلز کی طرح DW کو بھی اردو میں اپنی ٹی وی نشریات شروع کرنی چاہیئں۔
اس پانچ روزہ اجتماع کے دوران اتوار کو تیسرے دن بھی میلے میں لوگوں کی آمد صبح سویرے ہی شروع ہو گئی تھی۔ منتظمین کو امید ہے کہ ہفتہ وار تعطیل کی وجہ سے آج اتوار کو اس میلے کی سیر کرنے والے مہمانوں کی تعداد پچھلے دو روز کے مقابلے میں کہیں زیادہ رہے گی۔
اس بک فیئر میں جو بات سب کو اچھی لگی، وہ اس میلے میں نوجوانوں کی خصوصی دلچسپی ہے۔ ایک بڑی تعداد میں نوجوان لڑکے لڑکیاں تعلیم سے متعلق کتابیں ڈھونڈتے ڈوئچے ویلے کے اسٹال پر آتے ہیں، اور ان میں سے زیادہ تر اسکالرشپ حاصل کرنے اور اس غرض سے جرمن زبان سیکھنے میں دلچسپی دکھا رہے ہیں۔
بیسیوں ملکوں سے تعلق رکھنے والے شرکت کنندگان کے ڈھائی سو سے زائد اسٹالز کے ساتھ یہ نمائش شہرِ قائد میں کتاب سے محبت کرنے والوں کے لیے ایک اچھا تحفہ ثابت ہوئی ہے۔ نامور پبلشرز، مثلاﹰ آکسفورڈ یونیورسٹی پریس، نیشنل بک فاﺅنڈیشن، فیروز سنز، مکتبہ دانیال اور اردو اکادمی سندھ کے علاوہ متحدہ قومی موومنٹ، جماعت اسلامی اور سنّی تحریک نے بھی اپنے اپنے اسٹال لگا رکھے ہیں۔ ایرانی ثقافتی مرکز، خانہ فرہنگ ایران نے بھی اپنا اسٹال لگایا ہوا ہے۔ قریب سبھی اسٹالز پر کتابوں کے علاوہ ویب سائٹس کی نمائش بھی کی جا رہی ہے۔ اس میلے میں ایک اسٹال پر موجود ایک پبلشنگ کمپنی کے مالک نے کہا، ’ہم لوگوں سے اپنا الیکٹرونک رشتہ بنانے یہاں آئے ہیں۔ ہمیں خوشی ہے کہ اس نمائش سے کتابوں کا کراچی سے رشتہ مظبوط ہوتا نظر آتا ہے‘۔

Lahore Buchmesse 2011 Flash-Galerie
اس پانچ روزہ اجتماع کے دوران اتوار کو تیسرے دن بھی میلے میں لوگوں کی آمد صبح سویرے ہی شروع ہو گئیتصویر: DW
NO FLASH Frankfurter Buchmesse Bücherstapel
تصویر: AP

رپورٹ: رفعت سعید، کراچی

ادارت: عصمت جبیں

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں