1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کراچی میں ٹارگٹ کلنگ جاری

1 فروری 2010

وزیراعلی سندھ قائم علی شاہ ہر تھوڑے دنوں میں شہر میں قتل و غارت گری کو ایک سازش قرار دے کر اسے ناکام بنانے کا دعوی کر تے ہیں مگر زمینی حقائق کچھ اور ہی ہیں۔ عملی انتظامی معاملات پروزیر اعلیٰ کی گرفت کمزور نظر آتی ہے ۔

https://p.dw.com/p/LoqC
کراچی میں مختلف گروپوں کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ایک عام سی بات ہو گئی ہےتصویر: DW

کراچی میں ہدف بنا کر قتل کرنے کے واقعات میں گزشتہ تین روز میں 19 افراد کی ہلاکت کے بعد وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے وزیراعلی سندھ اور گورنرسندھ سے رابطہ کر کے دہشت گردی کی روک تھام کی فوری ہدایت کی ہے۔

سال 2010ءکے صرف ایک مہینے میں وزارت داخلہ کے مطابق 69 افراد ہلاک ہوچکے ہیں جبکہ شہر کے مضافاتی علاقوں اورنگی ٹاؤن اور قصبہ کالونی میں دو لسانی گروپوں کے درمیان مورچہ بند فائرنگ اب معمول کا حصہ ہے۔

حکومت کے تمام دعوؤں کے باوجود ہدف بنا کر قتل کرنے کے واقعات میں روز بہ روز اضافہ ہورہا ہے۔ گزشتہ مہینے جب شہرمیں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں اضافہ ہوا تھا تو صدر آصف علی زرداری نے اپنے اتحاد کو بچانے کے لئے کراچی میں ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی پر کسی حد تک قابو پا لیا تھا مگر دوسری جانب اے این پی بھی، جو مرکز اور صوبے میں حکومت میں شامل ہے، ایم کیو ایم کو ان واقعات میں ملوث قرار دیتی ہے لیکن ایم کیو ایم شہر میں لاقانونیت اور ہدف بناکرقتل کرنے کے واقعات کا زمہ دار ڈرگ مافیا اور لینڈ مافیا کو سمجھتی ہے۔

Pakistan Stadt Karachi Alltag Polizeiwagen
قانون نافذ کرنے والے ادارے قتل و غارت گری روکنے میں ناکام نظر آ رہے ہیںتصویر: DW

سینئیر صحافی اور تجزیہ کار اشرف خان کا کہنا ہے کہ کراچی میں قتل و غارت گری کے پیچھے سیاسی اور لسانی گروپوں کو وہ کشمکش بھی کارفرما ہے جو وہ بلدیاتی انتخابات سے قبل ایک دوسرے کو دباؤ میں لانے کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔ اشرف خان کے مطابق افسوسناک بات یہ ہے کہ زمین پر ناجائز قبضے کی اس جنگ کو لسانی اور سیاسی گروپوں کے درمیان کشمکش قرار دیا جارہا ہے۔

مزید یہ ہے کہ کراچی شہر میں اربوں روپے مالیت کی زمینوں پر ناجائز قبضے کے لئے لینڈ مافیا کے لوگ سیاسی اور لسانی جماعتوں سے وابستہ مسلح گروپوں کو استعمال کرتے ہیں جس کی وجہ سے شہر کا امن غارت ہوتا ہے۔

اشرف خان نے وزارت داخلہ کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے ڈوئچے ویلے کو بتایا:’’ اس رپورٹ میں کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کے نتیجے میں ہلاک ہونے والے افراد کی لسانی وابستگی کو واضح کیا گیا ہے۔ اس میں پشتو اور اردوزبان بولنے والے شامل ہیں۔‘‘

متاثرہ علاقوں میں رہنے والے پیشتر لوگ روزانہ اجرت کی بنیاد پر کام کر رہے ہیں۔ فائرنگ، جلاؤ گھیراؤاور ہدف بنا کر قتل کرنے کے پے درپے واقعات نے ان کی زندگی کو شدید متاثر کیا ہے۔ متاثرہ علاقوں میں رہنے والے افراد نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ ان علاقوں میں لسانی گروپوں نے مورچے بنا رکھے ہیں، جہاں سے وقفہ وقفہ سے فائرنگ کی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ شہریوں کے مطابق پولیس اور پیرا ملٹری امن قائم کرنے میں بری طرح ناکام ہیں۔

Pakistan Stadt Karachi Alltag Polizeieinsatz
رواں سال کے دوران اب تک 69 افراد ٹارگٹ کلنگ میں ہلاک ہو چکے ہیںتصویر: DW

سینئیر حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر کراچی میں بلدیاتی انتخابات ہوئے تو بڑے پیمانے پر قتل وغارت گری ہو گی کیونکہ شہر میں موجود تمام سیاسی لسانی گروپوں کے پاس بڑی مقدار میں جدید اسلحہ بھی موجود ہے، جس کی موجودگی کی تصدیق ہر روز رات کو ہونے والی ہوائی فائرنگ سے کی جا سکتی ہے ۔

سیاسی مصلحتوں کی بناء پر قانون نافذ کرنے والے ادارے بے گناہ شہریوں کی ہلاکت روکنے میں ناکام نظر آتے ہیں۔ صوبائی وزیر داخلہ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک سے نالاں ہیں، جس کے منفی اثرات امن وا مان کی بحالی اور حکومت اتحاد میں شامل ایم کیو ایم پر مرتب ہو رہے ہیں۔

رپورٹ : رفعت سعید، کراچی

ادارت : عدنان اسحاق