1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کردوں کو ریلی کیوں نکالنے دی، ترکی کی جانب سے جرمنی کی مذمت

27 مئی 2018

ترکی نے جرمن شہر کلون میں کُردوں کی حمایت میں ایک ریلی نکالنے کی اجازت دینے پر جرمنی کی مذمت کی ہے۔ انقرہ حکومت کے مطابق یہ فیصلہ ’جرمنی کے دہرے معیار‘ کی علامت ہے۔

https://p.dw.com/p/2yP4W
Deutschland Zehntausende Kurden gehen in Frankfurt auf die Straße
تصویر: Reuters/R. Orlowski

ترک وزارت خارجہ نے ایک بیان میں برلن حکومت کے اس فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے اسے دہرا معیار قرار دیا ہے۔ قبل ازیں برلن حکومت نے ترکی میں برسراقتدار جماعت کو جرمنی میں اپنی ایک مہم چلانے کی اجازت نہیں دی تھی۔

ترک وزارت خارجہ نے اپنی ویب سائٹ پر جاری ایک بیان میں کہا ہے،’’ اس دو رخی پالیسی کی ہم بھر پور طور پر مذمت کرتے ہیں کیونکہ یہ فیصلہ نہ تو جمہوریت کے تقاضوں کو پورا کرتا ہے اور نہ ہی دہشت گردی کے خلاف جنگ اور ترک جرمن تعلقات کو نارمل سطح پر لانے کی کوششوں سے میل کھاتا ہے۔‘‘

دوسری جانب جرمن حکومت کا کہنا ہے کہ ملک کے مغربی شہر کلون میں کردوں کو شام میں جاری ترکی کے ملٹری آپریشن کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔ علاوہ ازیں جرمنی کی جانب سے وضاحتی بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس مظاہرے میں ترکی میں اپوزیشن کے دو سیاستدانوں کو بھی تقریریں کرنے سے روک دیا گیا تھا جن کا تعلق پرو کردش جماعت ایچ ڈی پی سے ہے۔

Deutschland Kurden-Demo in Köln
تصویر: DW/C. Winter

اطلاعات کے مطابق اس مظاہرے کے دوران جن افراد کو تقریر کرنے کی اجازت دی گئی تھی اُن میں ممکنہ طور پر احمد یلدرم اور طوبی حیزر نامی دو افراد بھی شامل ہیں۔ یلدرم ترکی کو دہشت گردی کے الزامات میں مطلوب ہیں۔ انقرہ حکومت کے مطابق احمد یلدرم مبینہ طور پر کردستان ورکرز پارٹی سے وابستہ ہیں۔ کردستان ورکرز پارٹی سن انیس سو اسی کی دہائی سے جنوب مشرقی ترکی میں آزادی کے لیے مسلح جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہے۔ ترکی کے علاوہ یورپی یونین اور امریکا نے بھی کردستان ورکرز پارٹی کو دہشت گرد گروپ قرار دے رکھا ہے۔

ترکی میں صدارتی اور پارلیمانی انتخابات آئندہ ماہ کی چوبیس تاریخ کو ہونا طے پائے ہیں اور صدر ایردوآن کی جماعت جرمنی سمیت کئی دیگر یورپی ممالک میں انتخابی مہم کے سلسلے میں جلسے منعقد کرنے کی کوششوں میں ہے۔

جرمنی سمیت کئی دیگر اہم یورپی ممالک کی جانب سے جلسوں اور ریلیوں کی اجازت نہ ملنے پر ترک صدر رجب طیب ایردوان نے گزشتہ ہفتے بوسنیا کے دارالحکومت سراجیوو میں ایک ریلی کا انعقاد کیا تھا۔

سن 2016 میں ترکی میں بغاوت کی ناکام کوشش کے بعد سے مختلف وجوہات کی بنا پر دونوں ممالک کے تعلقات کشیدگی کا شکار ہیں۔ بغاوت کے بعد ایردوآن حکومت کے بعض اقدامات کو جرمن حلقے ماورائے قانون بھی تصور کرتے ہیں۔

ص ح / ڈی پی اے