1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کشمیر: نئی نسل نشیلی ادویات اور ہیروئن کے خوفناک سائے میں

29 دسمبر 2019

ماہرین نفسیات کے مطابق کشمیر کے خطے میں ہیرون اور دیگر منشیات کا بڑھتا استعمال نئی نسل کو ذہنی امراض کے علاوہ دیگر سنگین مسائل کا شکار بھی بنا رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/3VShk
Afghanistan Drogen Opium Drogensucht Gesellschaft
تصویر: Getty Images/AFP/N. Shirzada

سن 1989ء سے جاری بھارت مخالف سیاسی اور عسکری تحریکوں کے نتیجے میں بھارت کے زیرانتظام کشمیر میں اب تک ہزاروں افراد مارے جا چکے ہیں تاہم ماہر نفسیات کہتے ہیں کہ بحران زدہ خطے میں ہیروئن کے بے تحاشا استعمال سے نئی نسل کو ذہنی امراض کے ساتھ ساتھ دیگر سنگین مسائل کا بھی سامنا ہے۔

سری نگر میں واقع شری مہاراجہ ہری سنگھ ہسپتال کےانسٹی ٹیوٹ فار مینٹل ہیلتھ اینڈ نیورو سائنسز IMHANS کے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت کشمیر میں تقریباً ساڑھے تین لاکھ افراد مختلف نشیلی ادویات، جن میں ہیروئن، افیون، فیوی کول ایس آر اور تصحیحی فلیوڈ یا ‘کریکشن پین' جیسے سالوینٹس اور بوٹ پالش' کا بے جا استعمال کرتے ہیں۔

ایمہانز سری نگر کے سایکائیٹری ڈپارٹمنٹ کے ماہر نفسیات ڈاکٹر یاسر راتھر نے ڈی ڈبلیو اُردو سے گفتگو میں کہا کہ کشمیر میں نشیلی ادویات کا بے دریغ استعمال ہورہا ہے۔ ان کے مطابق تشویش کی بات یہ ہے کہ منشیات کے نوے فیصد عادی ایسے افراد ہیں جو ہیروئن کا استعمال کرتے ہیں جبکہ ان میں تقریباً تیس فیصد اسکولوں میں زیر تعلیم بچے بھی شامل ہیں۔

ڈاکٹر یاسر نے بتایا، ''بے کشمیر میں ڈرگز نے اپنا جال خوفناک طریقے سے بچھا رکھا ہے۔ گزشتہ دو برس سے ایک نیا رجحان یہ ہے کہ ہیروئن اور براوٴن شوگر کا بے تحاشا استعمال ہورہا ہے۔ یہ رجحان خطرناک ہی نہیں بلکہ کئی لحاظ سے مہلک بھی ہے۔‘‘

’منشیات فروشوں نے اچھے امریکی شہریوں کو ہلاک کر دیا‘

برلن: ’کوکین ٹیکسیاں‘ ایک بڑھتا ہوا مسئلہ

ہر سال تقریباً چار ہزار سے زائد افراد ایمہانز سری نگر کا اس وجہ سے رُخ کرتے ہیں تاکہ نشیلی ادویات سے نجات پا سکیں لیکن ڈاکٹروں کے مطابق جو خواتین نشیلی ادویات کا استعمال کرتی ہیں وہ سماج کے طعنوں اور قدامت پسند روایات کے باعث ماہرین نفسیات کے پاس جانے سے اب بھی کتراتی ہیں۔ ان کی اصل تعداد معلوم کرنا ایک پیچیدہ مسئلہ ہے۔

کونسلر سائیکالوجسٹ زویا میر کے مطابق مختلف وجوہات کے باعث نشیلی ادویات کے متعدد کیس رپورٹ ہی نہیں ہوتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ڈرگس کا استعمال کرنے والے چودہ برس کے بچے بھی ہیں اور پینسٹھ برس کے معمر اشخاص بھی۔ ڈرگ ایڈیکٹس کا تعلق کشمیری سماج کے کسی ایک خاص طبقے سے نہیں ہے۔ ریسرچ سے معلوم ہوا ہے کہ ان میں امیر گھرانوں، متوسط طبقوں اور انتہائی غریب طبقوں کے لوگ بھی شامل ہیں۔

سری نگر کے ایس ایم ایچ ایس ہسپتال کے علاوہ شہر میں کئی جگہوں پر ڈرگ ڈی ایڈیکشن مراکز بھی کھولے گئے ہیں۔ ایسے ہی ایک ڈی ایڈیکشن سینٹر کے انچارج ڈاکٹر مظفر خان کہتے ہیں کہ پہلے صورتحال یہ تھی کہ کینابیز اور میڈیسنل اوپیڈس کا استعمال عام تھا لیکن اب ڈرگ ایڈیکٹس آغاز سے ہی انجکشن کے ذریعے ہیروئن کا نشہ کرتے ہیں۔ یہ انتہائی خطرناک عمل ہے۔

ڈاکٹر مظفر نے ڈی ڈبلیو اُردو سے خصوصی بات چیت میں بتایا، ''نشیلی ادویات کے استعمال میں نئی اور انتہائی خوفناک تبدیلی یہ ہے کہ متعدد ٹین ایجرز سولہ سال کی عمر سے ہی ہیروئن کا نشہ کرتے پائے گئے ہیں۔ نتیجتاً انہیں ایچ آئی وی اور ہیپی ٹائیٹس انفیکشن کا خطرہ لاحق ہوتا ہے۔‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ سری نگر کے عیدگاہ علاقے میں قائم جس ڈرگ ڈی ایڈیکشن مرکز میں وہ اپنی پیشہ ورانہ خدمات سرانجام دے رہے ہیں وہاں ہر سال نشیلی ادویات کا استعمال کرنے والے مریضوں کے داخلے کی تعداد میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ ان کے مطابق کشمیر میں عام تاثر یہ ہے کہ زیادہ تر ڈرگ ایڈیکٹس جنوبی کشمیر کے چار اضلاع، کُلگام، اننت ناگ، شوپیان اور پلوامہ، میں پائے جاتے ہیں لیکن ان کے ادارے کے ایک جائزے کے مطابق عیدگاہ کے ڈرگ ڈی ایڈیکشن سینٹر میں اپنا علاج کرنے والوں میں زیادہ تر مریضوں کا تعلق سری نگر سے ہے۔

رواں برس جنوری سے اکتوبرتک تین ہزار ڈرگ ایڈیکٹس نے ان کے ڈی ایڈیکشن سینٹر کا رخ کیا ہے جن میں ڈھائی ہزار سے زائد آوٴٹ پیشنٹ ڈور اور تقریباً تین سو ان پیشنٹ ڈور مریض شامل ہیں۔ اسی عرصے کے دوران سری نگر کے ایمہانز میں اپنا علاج کرنے والوں کی تعداد چار ہزار سے بھی زائد تھی۔

اس گھمبیر صورتحال کے پیش نظر ایمہانز سے وابستہ ‘چائلڈ گائیڈنس اینڈ ویلبینگ سینٹر' نے ابھی حال ہی میں تیس اساتذہ پر مشتمل ایک گروپ کے ساتھ چار روزہ ورکشاپ کا انعقاد کیا۔ اس ورکشاپ کا مقصد ٹیچرز میں یہ آگہی پیدا کرنی تھی کہ وہ کلاس روم میں بچوں کی بدلتی عادات اور رویوں پر نظر کیسے رکھ سکتے ہیں اور اسکول کے احاطے میں نشیلی ادویات کے استعمال سے پہلے ہی اس پر روک لگا سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں اساتدة کو باضابطہ طور تربیت فراہم کی گئی۔

تازہ ریسرچ میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ بعض نوجوان کھلاڑی سپورٹس میں اپنی کارکردگی میں اضافے کے لیے بھی نشیلی ادویات کا سہارا لیتے ہیں۔ بعض افراد کو محض کھیل کھیل میں ہی منشیات کی لت لگ جاتی ہے۔ ایسے ایڈیکٹس بھی ہیں جو رومانوی رشتے میں تناوٴ، موجودہ سیاسی بے یقینی کے باعث ذہنی دباوٴ یا پھر اپنے والدین کی باہمی خلش میں تنہائی کے باعث ڈرگس کے جال میں پھنس گئے ہیں۔

تشویش کی بات یہ بھی ہے کہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں ڈاکٹرز وِد آؤٹ بارڈزر اور سری نگر کے ایمہانز کے ایک مشترکہ جائزے میں یہ سنسنی خیز انکشاف ہوا تھا کہ شورش زدہ خطے میں بالغ آبادی کا لگ بھگ چوالیس فی صد کسی نہ کسی ذہنی دباوٴ یا ذہنی مرض میں مبتلا ہے۔

ڈاکٹر مظفر خان نے ڈوئچے ویلے کو یہ بھی بتایا کہ یورپ تک میں سینتھیٹک ہیروئن آسانی سے دستیاب ہے، اس بات کی کوئی ضمانت نہیں دے سکتا ہے کہ گلوبلائزیشن کے موجودہ دورمیں یہ سینتھیٹک ہیروئن کشمیر نہ پہنچے۔

بعض ماہرین کی رائے میں گزشتہ تیس برسوں میں بندوق نے کشمیر کی ایک نسل کو کھایا اوراب ڈر اس بات کا ہے کہ کہیں اگلی نسل نشیلی ادویات کی نذر نہ ہوجائے۔

 

گوہر گیلانی، سری نگر، ع ت