1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کن فلمی میلہ لبنانی فلم ساز نے بھی لوٹ لیا

20 مئی 2018

لبنانی فلم ساز نادین لاباکی نے کن فلم فیسٹیول میں تیسری بہترین فلم کا ایوارڈ اپنے نام کر لیا۔ یہ ایوارڈ حاصل کرنے والی وہ پہلی عرب خاتون فلم ساز ہیں۔

https://p.dw.com/p/2y1eX
Filmfestspiele Cannes 2018 | Filmstill «Capernaum», Nadine Labaki (Libanon)
تصویر: F. Sokhon

ان کی فلم غریب بچوں اور مہاجروں سے متعلق تھی۔ انہوں نے اپنا یہ ایوارڈ اپنے ملک میں غریب بچوں کے نام کرنے کا اعلان کیا۔

ان کی فلم ’’کیپیرنم‘‘ ایک تیرہ سالہ شامی مہاجر بچے کی کہانی تھی، جس نے کن فلم فیسٹیول میں تمام افراد کی توجہ حاصل کر لی۔

’ملازمہ کے ساتھ محبت ، رشتے میں بدلنا ناممکن‘

کن فلم فیسٹول میں خواتین فنکاروں کی دھاک بیٹھ گئی

اپنی اداؤں سے لاکھوں دل جیتے لیکن ہندو، مسلمان شدت پسند ناراض

جیوری کی جانب سے تیسری پوزیشن کا ایوارڈ حاصل کرنے والی لاباکی نے کہا کہ وہ اس وقت اپنی فلم میں کام کرنے والی بارہ سالہ بچی کا سوچ رہی ہیں، جسے انہوں نے ایک گلی میں ٹشو بیچتے ہوئے دیکھا تھا اور جو گاڑیوں کے شیشوں سے چہرہ چپکا کر معصوم آنکھوں سے زندگی تلاش کرتی اپنا دن گزارتی ہے۔

صحافیوں سے بات چیت میں انہوں نے کہا، ’’میں اس وقت اپنی کاسٹ میں شامل افراد کا سوچ رہی ہوں۔ مجھے امید ہے کہ یہ فلم ان اور ان جیسے بچوں کی آواز بنے گی اور ان کے مسائل کو سنا جائے گا اور اس موضوع پر بحث کا آغاز ہو گا۔‘‘

44 سالہ فلم ساز جو نہایت عمدہ لباس میں تھیں، نے کہا، ’’مجھے شرم آ رہی ہے کہ میں نے اس وقت اتنا دلکش لباس پہن رکھا ہے جبکہ میں ایک ایسے بچے کی فلم کی ترویج کر رہی ہوں، جو اپنے والدین کی جانب سے زیادتیوں پر انہیں عدالت لے گیا تھا۔‘‘

کیپرینم فلم کے پریمیئر پر وہاں موجود لوگوں نے پندرہ منٹ تک کھڑے ہو کر داد دی۔

رواں ہفتے اے ایف پی کو دیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا تھا کہ وہ اس سے قبل خواتین کی آواز کو سامنے لاتی رہیں ہیں، کیوں کہ وہ خود ایک خاتون ہیں۔ ’’اب مجھے دیگر چیزیں بھی تنگ کرتی ہیں۔ میں ان سرحدوں کا سوچتی ہوں، جو فقط دستاویزات کی حد تک ہیں، ان بچوں کا بھی جو بے شمار زیادتیوں کا شکار ہیں، جدید غلامی کا بھی اور تارکین وطن مزدوروں اور شامی مہاجرین کا بھی۔‘‘

انہوں نے کیپرینم فلم میں جس انداز سے مناظر کی عکاسی کی ہے، اس سے واضح ہوتا ہے کہ انہیں اپنے آبائی ملک میں ہونے والی اس تنقید کی زیادہ فکر نہیں، جس میں کہا جا رہا ہے کہ انہوں نے ملک کے مسائل کو بین الاقوامی سطح پر لا کر ملکی تشخص کو نقصان پہنچایا۔ مختلف سماجی موضوعات پر بننے والی دیگر ممالک کی فلموں کو بھی فلم سازوں کے آبائی ممالک میں اسی انداز کی تنقید کا سامنا رہا ہے۔ پاکستانی فلم ساز شرمین عبید چنائی کی فلمیں، جنہیں آسکر انعام بھی ملا، ملکی سطح پر ایسی ہی بحث سے عبارت رہی ہیں۔

ہفتے کے روز کن فلم فیسٹیول کی تقسیم انعامات کی تقریب میں پہلا انعام جاپانی فلم ’شاپ لفٹرز‘ پر فلم ساز ہیروکازو کورے ایڈاکے نام ہوا، جب کہ دوسرا انعام امریکی فلم بیلک کلانسمین پر فلم ساز سپائیک لی کوملا۔

ع ت / ع س