1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا تم فیس بک یا ٹویئٹر پر ہو؟

22 ستمبر 2010

آج کل دوستوں سے ٹیلیفون نمبر یا ایڈریس مانگنے کے بجائے پوچھا یہ جاتا ہے کہ کیا تم فیس بک یا ٹویئٹر پر ہو؟ جی ہاں، اب ان ویب سائٹس کے مثبت ہی نہیں بلکہ منفی پہلو بھی سامنے آنے لگے ہیں۔

https://p.dw.com/p/PJ4w

سماجی ویب سائٹس نے گزشتہ چند سالوں کے دوران بے تحاشا مقبولیت پائی ہے۔ زندگی میں ان ویب سائٹس کے بڑھتے ہوئے عمل دخل کے حوالے سے امریکہ کی پینسلوانیا یونیورسٹی نے ایک تحقیقاتی رپورٹ شائع کی ہے۔ اس کے مطابق سوشل ذرائع استعمال کرنے سے ذہن پر دباؤ بڑھ جاتا ہے، ذاتی تعلقات کمزور ہو جاتے ہیں اور نیند پوری نہیں ہوتی، جس سے مسائل میں اضافہ ہوجاتا ہے۔

Logos der Online Communities Facebook Twitter und Xing
سوشل ذرائع استعمال کرنے سے ذہن پر دباؤ بڑھ جاتا ہے، ذاتی تعلقات کمزور ہو جاتے ہیں اور نیند پوری نہیں ہوتی

پینسلوانیا کی سائنس اور ٹیکنالوجی یونیورسٹی کے ہیرسبرگ کالج کے نگران ایرک ڈار کے ایماء پر یہ تجریہ کیا گیا۔ اس دوران اس تعلیمی ادارے میں ایک ہفتے کے لئے سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹس تک رسائی روک دی گئی۔ اس جائزے کو عملی شکل دینےکے لئے اس منصوبے میں 800 طلبا شریک ہوئے۔ اس کا اصل مقصد طالبعلموں کو یہ سمجھانا تھا کہ یہ ویب سائٹس اور دیگر ذرائع کس طرح ان کی تعلیم اور زندگی پراثر انداز ہو رہے ہیں۔ اس حوالے سے زیادہ تر طلبہ نے محسوس کیا کہ اگر فیس بک اور ایس ایم ایس کا استعمال مناسب انداز میں نہ کیا جائے تو یہ ان پر حاوی ہو جائیں گے۔

یہ سارا قصہ اس وقت شروع ہوا، جب کالج کے ایک طالب علم نے ایرک ڈار کو بتایا کہ وہ بہت بری طرح سماجی ویب سائٹس کا عادی ہو چکا ہے۔ وہ دن میں کم از کم 21 گھنٹے ان پر صرف کرنے پر مجبور ہے۔ ڈارکے خیال میں اسے ایک لت کہا جاسکتا ہے۔ ڈار نے یہ بھی تسلیم کیا کہ شعبے کے بہت سے طلبا مجبوراً اس جائزے میں شامل ہوئے تھے۔ اس جائزے کی مدت پوری ہونے کے فوراً بعد ان طلبا نے اپنے ایس ایم ایس پیغامات اور ای میلز پڑھنے کے لئے اپنے موبائل فون چیک کرنا شروع کر دئے تھے۔

Werbeoffensive im Web 2.0 facebook Deutschland Internet Werbung Datenschutz
اگر فیس بک اور ایس ایم ایس کا استعمال مناسب انداز میں نہ کیا جائے تو یہ ان پر حاوی ہو جائیں گےتصویر: AP

پابندی کے اس ایک ہفتے کے دوران ان کا حال بالکل ایک تمباکو نوش کی طرح کا تھا۔ لیکن کچھ ایسے بھی تھے، جن پر یہ بھی واضح ہو گیا کہ اس دوران ان پر دباؤ کم تھا اور انہوں نے اپنے دوستوں کے مصروفیات پر نظر رکھنے کے بجائے یہ وقت دیگر کاموں پر صرف کیا۔ کچھ طلبا کویہ بھی سمجھ آیا کہ ’روبرو‘ ملاقات آئن لائن بات چیت سے زیادہ دلچسپ ہوتی ہے۔

ایرک ڈار کے بقول تیزی سے گزرتا ہوا وقت یہ اندازہ ہی نہیں ہونے دے رہا کہ یہ سماجی ویب سائٹس کس طرح ہمیں اپنے شکنجے میں جکڑتی جا رہی ہیں۔ ان کا عمل دخل اتنا بڑھ گیا ہے کہ بہت سے اہم فیصلے انہیں دیکھتے ہوئے کئے جاتے ہیں، بلکہ کام کرنے کے طریقہء کار کے بارے میں بھی انہی کا سہارا لیا جاتا ہے۔ ڈارکا کہنا تھا کہ اپنی زندگیوں پر ان سماجی ویب سائٹس کے بڑھتے ہوئے اثر کو اصل میں صرف اسی وقت سمجھا جاسکتا ہے، جب ان کا استعمال روک دیا جائے یا انہیں کم اہمیت دی جائے۔

Mobiltelefone Symbolbild cell phone Handy
اس جائزے کی مدت پوری ہونے کے فوراً بعد ان طلبا نے اپنے ایس ایم ایس پیغامات اور ای میلز پڑھنے کے لئے اپنے موبائل فون چیک کرنا شروع کر دئے تھےتصویر: picture-alliance / maxppp

ہیرس برگ امریکہ کا پہلا کالج ہے، جہاں ایک ہفتے کے لئے سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹس تک رسائی روکنے کا یہ انوکھا تجربہ کیا گیا ہے۔ ایرک ڈار نے بتایا کہ یہ کوئی آسان کام نہیں تھا اور یقیناً اس سے حاصل ہونے والے نتائج مستقبل میں زندگی کی منصوبہ بندی میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی تسلیم کیا کہ یہ تجربہ ہر یونیوسٹی یا کالج میں نہیں کیا جا سکتا۔ اس منصوبے کے خلاف پینسلوانیا کے اس کالج میں احتجاج بھی ہوا۔ مظاہرین کا موقف تھا کہ یہ اقدام آزادی اظہار پر پابندی کے مترادف ہے۔ بہرحال اس ایک ہفتے کے دوران جو نتائج حاصل ہوئے ہیں، ماہرین ان کا تجزیہ کرنے میں مصروف ہیں۔

رپورٹ: عدنان اسحاق

ادارت: مقبول ملک