1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا پاکستان چین اور امریکا سے تعلقات میں توازن رکھ پائے گا؟

عبدالستار، اسلام آباد
17 مئی 2017

پاکستان کے لیے چین اور امریکا دونوں ہی اہم اتحادی ملک ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان کو ان دونوں ممالک کے ساتھ تعلقات میں توازن رکھنا ہوگا لیکن کیا ایسا ممکن بھی ہے؟

https://p.dw.com/p/2d758
China Seidenstaße-Gipfel- chinesischer Präsident Xi Jinping mit pakistanischer Premierminister Nawaz Sharif
تصویر: picture-alliance/AP Photo/K. Fukuhara

امریکا میں متعین پاکستانی سفیر اعزاز چوہدری نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسلام آباد امریکا اور چین دونوں سے بہتر تعلقات رکھنا چاہتا ہے۔ لیکن تجزیہ نگاروں کے خیال میں پیچیدہ علاقائی و بین الاقوامی سیاسی ماحول میں پاکستان کے لئے یہ بہت مشکل ہوگیا ہے کہ وہ بیجنگ اور واشنگٹن دونوں سے بہت قریبی تعلقات رکھے۔

نیشنل یونیورسٹی فار سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے ادارہ برائے بین الاقوامی امن و استحکام سے وابستہ ڈاکٹر بکر نجم الدین کے خیال میں پاکستان کے لئے یہ مشکل ہے کہ وہ ان تعلقا ت میں بہترین توازن حاصل کر سکے۔ تاہم کچھ اقدامات کے ذریعے ایسا کیا جا سکتا ہے۔ ڈوئچے ویلے سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’اگر خطے میں ایران کے خلاف امریکا و سعودی عرب کچھ کرتے ہیں تو اس کی بیجنگ اور ماسکو کی طرف سے بھر پور مخالفت کی جائے گی۔ لہذا پاکستان کو یہ بات امریکا پر واضح کرنی پڑے گی کہ وہ ایران کے خلاف کسی صورت کوئی ایسا اقدام برداشت نہیں کرے گا، جس سے خطے میں عدم استحکام ہو۔ اسی طرح امریکا، روس اور چین افغانستان میں امن چاہتے ہیں۔ پاکستان ان کوششوں کو کامیاب بنانے میں اپنا کردار ادا کر سکتا ہے اور ایک ایسا پائیدار حل افغانستان کا تلاش کیا جا سکتا ہے، جس میں تمام لسانی اکائیوں کی بھرپور نمائندگی ہو۔‘‘
انہوں نے کہا شام کے مسئلے پر ایران، روس اور چین کا نقطہء نظر قریب قریب ہے، ’’پاکستان کو چاہیے کہ وہ شام و یمن کے مسئلے سے اپنے آپ کو دور رکھے۔ پاکستان سعودی عرب اور امریکا کو قائل کر سکتا ہے کہ وہ ایران کے ساتھ اپنے تعلقات نہیں بگاڑ سکتا کیونکہ تہران اسلام آباد کا پڑوسی ہے اور ملک میں ایک بڑی تعداد شیعہ مسلمانوں کی ہے۔ اگر امریکا اور سعودی عرب ایران کے خلاف جاتے ہیں تو پاکستان کو واضح طور پر اس مسئلے پر ایران کے خلاف نہیں جانا چاہیے۔‘‘
سابق پاکستانی سفیر برائے ایران فوزیہ نسرین نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’دیکھیں کئی ممالک میں پراکسی جنگیں پہلے ہی چل ری ہیں، چاہے وہ شا م ہو، عراق ہو یا پھر یمن ہو۔ تو ابھی بھی یہ کہا گیا ہے کہ ایران کے اندر غیر فارسی اقوام کو بغاوت پر اکسایا جائے گا۔ اگر معاملہ صرف یہ ہی رہتا ہے تو شاید پاکستان کے لئے اتنا مسئلہ نہ ہو لیکن ایران کے خلاف اگر کوئی جارحیت ہوتی ہے تو اس میں اقوام متحدہ اور بین الاقوامی برادری میں پاکستان کے لئے پوزیشن لینا مشکل ہو جائے گی۔‘‘
پریسٹن یونیورسٹی کے شعبہ ء بین الاقوامی تعلقات سے وابستہ ڈاکڑ امان میمن نے اس حوالے سے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’کئی بین الاقوامی امور پر امریکا اور چین کے موقف مختلف ہیں۔ امریکا، اسرائیل اور سعودی عرب اب ایران کی بڑی شدت سے مخالفت کر رہے ہیں اور اوباما کے دور میں سفارت کاری کے ذریعے ایران سے جو معاہدہ ہوا تھا اب یہ بہانے ڈھونڈ رہے ہیں کہ اس معاہدے کو توڑا جائے اور ایران کے خلاف کوئی اشتعال انگیزی کی جائے۔ چین خطے میں کوئی کشیدگی نہیں چاہتا۔ اگر ایران کے خلاف کوئی اشتعال انگیزی یا جارحیت ہوتی ہے، توچین و روس اس کی مخالفت کریں گے۔ ایسی صورت میں پاکستان کے لئے ایک طرف سعودی عرب اور امریکا ہوں گے جب کہ دوسری طرف چین و روس۔ پاکستان خطے میں پہلے ہی بھارت، ایران اور افغانستان کو ناراض کر چکا ہے۔ اب ہمارے پاس چین کے علاوہ خطے میں کچھ نہیں بچے گا۔ میرے خیال میں جب چین و امریکا سے تعلقات میں توازن کا سوال آئے گا، تو اسلام آباد چین کو ترجیح دے گا۔‘‘