1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیوبا: کیا ساٹھ برس پہلے کا انقلاب کامیاب رہا؟

26 جولائی 2013

کیوبا میں انقلاب کا باقاعدہ آغاز ٹھیک ساٹھ برس پہلے 1953ء میں امریکا کی پشت پناہی سے اقتدار پر مطلق العنان حکمران فُلخینسیو باتِستا کے قبضے کے ایک سال بعد ہوا تھا۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ انقلاب اپنے مقاصد حاصل کر پایا ہے؟

https://p.dw.com/p/19EeQ
تصویر: picture-alliance/dpa

اُس زمانے میں فیدل کاسترو ابھی ایک گمنام وکیل تھے، جنہوں نے آئینی درخواست کے ذریعے آمر باتِستا کو اقتدار سے رخصت کرنے کی کوشش کی۔ اس کوشش کی ناکامی کے بعد یہی کام طاقت کے زور پر کرنے کا منصوبہ بنایا گیا۔ کاسترو کو 130 سے زیادہ مردوں اور عورتوں کی مدد حاصل ہو گئی اور یوں کارنیوال کے فوراً بعد دو چھاؤنیوں پر قبضہ کرنے اور وہاں سے ہتھیار حاصل کرنے کا پروگرام بنایا گیا۔ کاسترو کا خیال تھا کہ کارنیوال کی تقریبات میں شرکت کی وجہ سے وہاں ڈیوٹی انجام دینے والے 400 فوجی تھکن سے نڈھال ہوں گے لیکن یہ بغاوت ناکام ہوئی اور انقلابی عدالت کے کٹہرے تک پہنچ گئے۔

یہ وہ چھاؤنی ہے، جس پر حملے کے ساتھ انقلاب کا آغاز ہوا تھا
یہ وہ چھاؤنی ہے، جس پر حملے کے ساتھ انقلاب کا آغاز ہوا تھاتصویر: picture-alliance/dpa/dpaweb

عدالت میں کاسترو نے اپنا دفاع خود کیا اور بتایا کہ وہ اور اُن کے ساتھی کیوبا میں زمین کی مساوی تقسیم چاہتے ہیں، صنعتی ترقی کو آگے بڑھانے کے خواہاں ہیں، بے روزگاری میں کمی کی جائے گی اور تعلیم اور صحت کے مواقع تک ہر کسی کی رسائی ممکن بنائی جائے گی۔ انقلابیوں کے لیے باتِستا کو اقتدار سے ہٹانا کہیں برسوں بعد 1959ء ہی میں ممکن ہو سکا۔ سوال لیکن یہ ہے کہ جن آزادیوں کے خواب کاسترو نے دکھائے تھے، کیا پانچ عشروں سے زیادہ وقت گزر جانے کے بعد اُن کی تعبیر مل پائی ہے؟

سوشلزم، ریاستی کیپیٹل ازم اور آزاد معیشی اصلاحات کے درمیان

کیوبا کے تاریخ دان پیدرو کامپوس کے مطابق کاسترو اور اُن کے ساتھیوں کا منشور پرانی کمیونسٹ پارٹی کے مقابلے میں بھی زیادہ سوشلسٹ تھا۔ کمیونسٹوں کے منشور میں ایک متحدہ جماعت کے زیر نگرانی کام کرنے والے ایک ایسے ریاستی کیپیٹل ازم کا مطالبہ شامل تھا، جس میں چند ایک مشترکہ زرعی فارموں کی بھی اجازت ہو۔ اس کے برعکس کاسترو شہریوں کو زیادہ حقوق دینے کے حق میں تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ اداروں کے منافع میں کارکنوں کو بھی شریک کیا جائے، اپنا انتظام خود چلانے والے مشترکہ زرعی فارموں کو مزید مستحکم بنایا جائے اور شہریوں کی شرکت کو ممکن بنانے کے لیے جمہوری طریقوں کا احیاء کیا جائے۔ تاہم تاریخ دان کامپوس کے مطابق ان میں سے اب تک کچھ بھی حاصل نہیں کیا جا سکا ہے۔

24 جولائی 2008ء کو انقلاب کی 55 ویں سالگرہ سے دو روز قبل کیوبا کے شہر سانتیاگو میں ایک لڑکی فیدل کاسترو اور اُن کے بھائی راؤل کی تصاویر کے پاس سے گزرتی دکھائی دے رہی ہے
24 جولائی 2008ء کو انقلاب کی 55 ویں سالگرہ سے دو روز قبل کیوبا کے شہر سانتیاگو میں ایک لڑکی فیدل کاسترو اور اُن کے بھائی راؤل کی تصاویر کے پاس سے گزرتی دکھائی دے رہی ہےتصویر: picture-alliance/dpa

امریکی یونیورسٹی آف پِٹس برگ میں معیشت اور لاطینی امریکی مطالعات کے سابق پروفیسر کارمیلو میسا لاگو کے خیال میں اس کی وجہ کیوبا کا سیاسی طور پر باقی دنیا سے الگ تھلگ ہو جانا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’کیوبا کو سیاسی خود مختاری تو مل گئی لیکن اقتصادی طور پر یہ ہمیشہ بیرونی ممالک کا محتاج رہا، پہلے اسپین کا، پھر امریکا اور سوویت یونین کا اور اب وینزویلا کا‘۔ 80ء کے عشرے کے اواخر کے کیوبا میں سماجی اور اقتصادی اعداد و شمار اُس کی تاریخ کے بہترین اعداد و شمار تھے۔ 90ء کے عشرے کے اوائل میں یہ صورتِ حال اُس وقت تبدیل ہونا شروع ہو گئی، جب سوویت یونین ٹوٹا۔ چنانچہ فیدل کاسترو کے بھائی راؤل کی طرف سے متعارف کروائی جانے والی آزادانہ معیشت کی نئی اصلاحات کو بڑے چیلنجوں کا سامنا ہے۔

ایک اندازے کے مطابق کیوبا کی گیارہ ملین کی آبادی میں ایک ملین سے زیادہ مکانات کی کمی ہے۔ تجارتی خسارہ اور ریاستی قرضے ریکارڈ حد کو پہنچے ہوئے ہیں۔ امیر اور غریب کے درمیان خلیج بڑھتی جا رہی ہے اور غربت کے شکار شہریوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ دوسری جانب سماجی امداد وصول کرنے والوں کی تعداد میں تقریباً 70 فیصد کمی ہوئی ہے۔ پابند معیشت کے باعث زرعی پیداوار جمود کا شکار ہے اور تقریباً ساری زرعی اراضی ریاست کی ملکیت ہے۔ اب راؤل کاسترو نے اصلاحات کے عمل کے دوران اضافی عملے کو سرکاری ملازمتوں سے نکالنے کا اعلان کیا ہے، جس کے نتیجے میں کیوبا کی کام کرنے کے قابل آبادی کا ایک تہائی بیروزگار ہو سکتا ہے۔

کیوبا میں عام لوگوں کے لیے طبی سہولتیں گزشتہ چند برسوں کے دوران خراب تر ہوتی چلی گئی ہیں
کیوبا میں عام لوگوں کے لیے طبی سہولتیں گزشتہ چند برسوں کے دوران خراب تر ہوتی چلی گئی ہیںتصویر: STR/AFP/Getty Images

سیاسی جمود اور بین الاقوامی ساکھ

کیوبا میں اگر ایک طرف کم عمری میں بچوں کی شرحِ اموات دنیا بھر میں سب سے کم اور پورے لاطینی امریکا میں اوسط عمر سب سے زیادہ ہے تو دوسری طرف کیوبا کے تاریخ دان اور ماہر سیاسیات ارماندو چاگواسیدا کے مطابق سماجی تحفظ، تعلیم اور صحت کے شعبوں میں حالات مسلسل خراب تر ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ میکسیکو کی ویراکروز یونیورسٹی سے بطور استاد وابستہ چاگواسیدا کے خیال میں اس کی وجہ بجٹ کٹوتیاں ہیں، جن کے باعث پانی کی فراہمی اور نکاسی کے منصوبے بھی متاثر ہو رہے ہیں۔

ملک کی موجودہ ابتر صورتِ حال کے باعث نہ صرف بیرونی دنیا میں اُس کے حامیوں کی تعداد کم ہوئی ہے بلکہ خود اُس کے اپنے شہریوں میں بھی عدم اطمینان بڑھ رہا ہے۔ وہاں ابھی بھی ایک ہی سیاسی جماعت کی حکمرانی ہے اور اظہارِ رائے کی آزادی محدود ہے۔

اگرچہ کچھ تبدیلیاں بھی دیکھنے میں آ رہی ہیں مثلاً سفری آزادیاں، ترک وطن کے امکانات اور نجی شعبے کی سرمایہ کاری تاہم ساٹھ سال پہلے کاسترو نے جو خواب دکھائے تھے، اُن کی تعبیر ابھی بھی بہت دور دکھائی دیتی ہے۔

روزا مُونوز لِیما / اے اے

عدنان اسحاق