1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

گلاسگوکامن ویلتھ گیمز، پاکستانی پسپائی کے اسباب

طارق سعید، لاہور4 اگست 2014

بیسویں دولت مشترکہ کھیلوں میں پاکستانی دستہ مایوس کن کارکردگی کے بعد طلائی تمغے کے بغیر گلاسگو سے واپس لوٹ رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/1CoOS
تصویر: Reuters

62 رکنی پاکستانی دستے نے اتوار کو اسکاٹ لینڈ میں ختم ہونے والے کھیلوں میں تین نقرئی اور ایک کانسی کے تمغے کے ساتھ 71 ممالک میں تیسویں پوزیشن حاصل کی۔

کامن ویلتھ گیمز کے آخری مرحلے میں پاکستان کی آخری امیدوں کا مسکن باکسنگ ٹیم کے کپتان محمد وسیم تھے جنہیں باون کلو گرام فلائی ویٹ فائینل میں آسٹریلیا کے اینڈریو مولنی کے ہاتھوں 28-29 سے ڈرامائی شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

اس سے پہلے شاہ حسین شاہ نے جوڈو جبکہ کشتی میں قمرعباس کو بھی چاندی کے تمغوں پر اکتفا کرنا پڑا جبکہ دلی کامن ویلتھ گیمز کے پاکستانی ہیرو اظہر حسین اس سال کانسی کے تمغے تک محدود رہے۔

پاکستان نے پہلی بار 1954ء کے وینکوور کامن ویلتھ گیمز میں حصہ لیا تھا اور اس کے بعد سے اس نے ان کھیلوں میں اب تک 24 طلائی تمغوں سمیت 69 میڈل جیت رکھے ہیں۔

پاکستان اسپورٹس بورڈ کے ایک سابق اور کامیاب ڈائریکٹر جنرل عارف محمود صدیقی نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے گلاسگو کھیلوں میں سُبکی کا ذمہ دار اسپورٹس کے پرانے عہدیداروں کو قرار دیا۔

عارف محمود صدیقی کا کہنا تھا کہ ہم کھلاڑیوں کو ناکامی کا ذمہ دار نہیں ٹھہرا سکتے بلکہ اسپورٹس بورڈ نے انہیں صرف پندرہ بیس دن کی ٹریننگ دی اس کے بعد ان سے کیا توقع رکھی جا سکتی تھی۔ یہ ناکامی کھیلوں کی فیڈریشنز پرعرصہ دراز سے قابض غیر پیشہ ور اور فرسودہ عہدیداروں کے سر ہے جن کی سرپرستی بین الصوبائی امور کے وفاقی وزیر کر رہے ہیں جو ایک دن جنرل عارف حسن کو ہتھکڑیاں لگانے کی بات کرتے ہیں اور اگلے روز گلاسگو جانے کے شوق میں سب کچھ بھول جاتے ہیں۔

پاکستان نے پہلی بار 1954ء کے وینکوور کامن ویلتھ گیمز میں حصہ لیا تھا اور اس کے بعد سے اس نے ان کھیلوں میں اب تک 24 طلائی تمغوں سمیت 69 میڈل جیت رکھے ہیں
پاکستان نے پہلی بار 1954ء کے وینکوور کامن ویلتھ گیمز میں حصہ لیا تھا اور اس کے بعد سے اس نے ان کھیلوں میں اب تک 24 طلائی تمغوں سمیت 69 میڈل جیت رکھے ہیںتصویر: picture-alliance/dpa

دوسری جانب پاکستانی دستے کی سلیکشن میں روا رکھی جانے والی کنبہ پروری اور اقرباء نوازی کا ہوش ربا انکشاف ہوا ہے۔ پاکستانی ریسلرز نے ماضی میں ہمیشہ کامن ویلتھ گیمز میں پاکستان کی لاج رکھی مگر گلوسگو کے اکھاڑے میں اترنے سے پہلے متنازع کوچ محمد انور کی تقرری مہلک ثابت ہوئی۔ معلوم ہوا ہے کہ پاکستانی ریسلرز محمد انور کے بطور کوچ تقرر پر سخت دلبرداشتہ تھے مگر ریسلنگ فیڈریشن نے پہلوانوں کی ایک نہ سنی اور یوں پہلوانوں اور کوچ میں اختلاف کا ملبہ گلاسگو میں ملک پرجا گرا۔

ان کھیلوں میں پاکستانی تیراکوں کی کارکردگی شرمناک حد تک خراب رہی۔ آٹھ رکنی سوئمنگ ٹیم جس میں پاکستان سوئمنگ فیڈریشن کے سیکرٹری کی بھانجی انعم بانڈے کے ہمراہ ان کے بھانجے حارث بانڈے کو کسی قسم کے ٹرائلز کے بغیر شامل کیا گیا۔ تاہم یہ سوئمنگ ٹیم گلوسگو کے پانیوں میں ہاتھ پاؤں مارنے کے علاوہ کچھ نہ کرسکی۔

بیڈمنٹن میں ملک کے نمبر ایک کھلاڑی مراد علی کو نظرانداز کرنا مہنگا پڑا اور دو رکنی پاکستانی بیڈمنٹن ٹیم 32 کے راؤنڈ میں ہی پسپا ہوگئی۔ گلاسگو الیکٹرانک شوٹنگ رینج میں ساتوں پاکستانی شوٹرز کے نشانے بھی خطا ہوگئے۔ کوچ کے بغیر ٹیبل ٹنیس اورجمناسٹک میں بھی پاکستان کی شرکت رسمی ہی ثابت ہوئی۔ ملک کے دو سرکردہ جمناسٹ سید سیف الدین اور افضل کو جمناسٹک فیڈریشن کے ایک کرتا دھرتا نے اپنی انا کی بھینٹ چڑھاتے ہوئے اپنے ایک چہیتے غلام قادرکو سکواڈ کا حصہ بنایا جسے کوالیفائنگ راؤنڈ میں ہی منہ کی کھانا پڑی۔

پاکستانی ویٹ لفٹنگ ٹیم بھی میرٹ کے قتل عام سے نہ بچ سکی۔ گلاسگو میں پانچوں پاکستانی ویٹ لفٹرز کو سیکرٹری پاکستان ویٹ لفٹنگ فیڈریشن عمران بٹ کے صاحبزادے عرفان بٹ کا اضافی وزن بھی اٹھانا پڑا جو کوچ بنا کر ان پر مسلط کیے گئے تھے۔

بیسویں کامن ویلتھ گیمز میں رسوائی کی سب سے بڑی داستان پاکستان کی نام نہاد لان بالز ٹیم نے رقم کی۔ گلاسگو کے دو سن رسیدہ ہوٹل مالکان مظاہرعلی او ایوب قریشی کے ہمراہ پاکستان لان بالز فیڈریشن کے سیکرٹری مقصود وسیم شیخ چلی کی طرح خود ہی تیر کے سامنے تکا لگانے میدان میں کود پڑے اور اگلے ہی لمحے یہ ’’شیر‘‘ ڈھیر ہوگئے۔

پینترہ بازی کے ماہر درجنوں پاکستانی اسپورٹس حکام جنہوں نے ’’اوروں‘‘ کے مال پر گلوسگو کے سرمئی موسم میں دو ہفتے خوب دیوالی منائی ان میں بین الصوبائی امور کے وفاقی وزیر ریاض پیرزادہ، پاکستان اسپورٹس بورڈ کے ڈائریکٹر جنرل اختر گنجیرہ اور ان کے حواری خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔