1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

گوانتانامو کے نو یمنی قیدی سعودی عرب منتقل

عاطف توقیر17 اپریل 2016

امریکا نے بدنام زمانہ حراستی مرکز گوانتانامو کے نو یمنی قیدیوں کو سعودی عرب کے حوالے کر دیا ہے۔ ان میں ایک قیدی وہ بھی ہے، جس نے سن 2007ء سے بھوک ہڑتال کر رکھی ہے۔

https://p.dw.com/p/1IXAv
Kuba US-Gefangenlager Guantanamo Bay
تصویر: Reuters/L. Jackson

امریکی حکام کے مطابق دونوں ممالک کے درمیان ایک طویل عرصے سے اس معاملے پر مذاکرات جاری رہے، جب کہ اس موضوع پر ایک مقام پر سعودی شاہ سلمان اور امریکی صدر باراک اوباما نے بھی بات چیت کی۔

قیدیوں کی سعودی عرب منتقلی ایک ایسے موقع پر ہوئی ہے، جب چند روز بعد امریکی صدر باراک اوباما سعودی عرب کا دورہ کرنے والے ہیں۔ عہدہ صدارت سنبھالنے کے بعد اس حراستی مرکز کو جلد از جلد بند کرنے کا اعلان کرنے والے باراک اوباما ریبپبلکن جماعت کی جانب سے شدید مخالفت کی وجہ سے اپنی دو مرتبہ کی مدت صدارت میں اپنے اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے میں ناکام رہے، تاہم رواں برس فروری میں اوباما نے دوبارہ اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ وہ اگلے برس جنوری میں اپنی مدت صدارت کی تکمیل سے قبل یہ حراستی مرکز بند کر دیں گے۔ اس اعلان کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ اتنے زیادہ قیدیوں کا کوئی گروپ اس حراستی مرکز سے کسی دوسرے ملک منتقل کیا گیا ہے۔

بتایا گیا ہے کہ طویل مذاکرات کے بعد سعودی حکام اس بار قیدیوں کو قبول کرنے پر متفق ہوئے تھے، جس کے تحت ان نو یمنی قیدیوں کی سعودی عرب منتقلی ممکن ہو پائی ہے۔

USA Barack Obama Plan zur Schließung Guantanamo Bay
صدر اوباما بدھ کو سعودی عرب پہنچنے والے ہیںتصویر: picture-alliance/dpa/S. Thew

سن 2001ء میں امریکا میں ہونے والے دہشت گردانہ حملوں کے بعد قائم کیے جانے والے اس فوجی حراستی مرکز میں اس وقت بھی 80 قیدی موجود ہیں، جنہیں بغیر کوئی الزام عائد کیے یا باقاعدہ مقدمہ چلائے، گزشتہ ایک دہائی سے قید میں رکھا گیا گیا۔

حکام کا کہنا ہے کہ ان قیدیوں میں سب سے اہم طارق بعدہ ہے، جس نے سن 2007ء سے بھوک ہڑتال کر رکھی ہے۔ اس 37 سالہ یمنی قیدی کو زبردستی کھلایا جاتا ہے۔ بعدہ کی قانونی ٹیم کے مطابق اس قیدی کا اب تک 74 پاؤنڈ وزن کم ہو چُکا ہے، جو اس کے کل وزن کا تقریباﹰ نصف ہے۔

بعدہ کے وکیل عمر فرح کے مطابق اس منتقلی سےگوانتانامو کے حراستی مرکز کی تاریخ کا ایک اہم اور بھیانک باب بند ہو گیا ہے۔

امریکی صدر باراک اوباما بدھ کے روز دو روزہ دورے پر ریاض پہنچ رہے ہیں، جہاں وہ خلیجی تعاون کونسل کے اجلاس میں شرکت کریں گے اور خطے میں ایران کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ اور شامی صورت حال پر بات چیت ہو گی۔ سعودی عرب اور امریکا کے درمیان تعلقات ایک طرف تو ایران کے ساتھ طے پانے والے جوہری معاہدے کی وجہ سے کشیدگی کا شکار ہیں اور دوسری جانب سعودی حکومت کو یہ شکایت بھی ہے کہ شامی تنازعے میں امریکی حکومت کا کردار کمزور رہا ہے۔