1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

گولیاں میں نے چلائی تھیں، فورٹ ہُڈ حملہ آور

عابد حسین7 اگست 2013

سن 2009 میں امریکی فوجی مرکز فورٹ ہُڈ میں فائرنگ کر کے ایک درجن سے زائد افراد کو ہلاک کرنے والے ماہر نفسیات میجر ندال حسن کے کورٹ مارشل کی کارروائی کا آغاز ہو گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/19L9D
تصویر: picture-alliance/dpa

میجر ندال حسن نے کورٹ مارشل کے دوران اپنا بیان دیتے ہوئے کہا کہ شہادتوں سے واضح ہوتا ہے کہ وہی شُوٹر ہے۔  فورٹ ہُڈ میں شوٹنگ کے دوران ایک جوابی فائر سے وہ شدید زخمی ہوا تھا اور اب اس کا نچلا دھڑ پوری طرح مفلوج ہے۔ جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے کے مطابق کورٹ مارشل کی کارروائی کے دوران وہ وہیل چیئر پر بیٹھا ہوا تھا اور اس نے اپنی وردی پہن رکھی تھی۔ عدالتی کارروائی میں وہ پوری طرح خاموش رہا۔ بظاہر اس نے اپنے دفاع کو اپنے ہاتھ میں لے رکھا ہے۔

فوجی عدالت میں اس کا دیا گیا ابتدائی بیان اس کے انتہا پسندانہ خیالات کا عکاس تھا۔ اس نے عدالت کو بتایا کہ اس نے فوجیوں کو اِس لیے ہلاک کیا تاکہ اس کے مسلمان ساتھی ان کے ہاتھوں سے محفوظ رہ سکیں۔ عدالت میں بیان دیتے ہوئے اس نے خود کو مجاہدین کی صف میں کھڑا کرتے ہوئے کہا کہ ان کی جدوجہد عظیم خدا کی سرزمین پر ایک مکمل دین کا نفاذ ہے۔ اس نے یہ بھی کہا کہ اگر وہ اپنی جدوجہد میں کسی غلطی کا مرتکب ہوا ہے تو وہ معافی چاہتا ہے۔

US Soldatinnen an vorderster Front
فورٹ ہُڈ میں ہلاک ہونے والے فوجیوں کو ان کے ساتھی فوجی سلام پیش کرتے ہوئےتصویر: Getty Images

نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق میجر ندال حسن کے کورٹ مارشل کی کارروائی قدرے تاخیر سے شروع ہوئی ہے اور اس کی وجہ اس کا داڑھی رکھنا ہے۔ داڑھی رکھنے کے حق میں وہ اپنی خواہش پر اٹل رہا۔ اس دوران اس نے اپنے وکیل کو بھی اپنے مقدمے سے علیٰحدہ کر دیا اور اب وہ خود ہی اپنی وکالت کرنے کی خواہش رکھتا ہے۔ عدالتی کارروائی میں وہ اپنی گھنی داڑھی کے ساتھ پیش ہوا ہے اور یہ امریکی فوج کے گرُومنگ ضوابط کے منافی ہے۔ میجر حسن کی عمر بیالیس برس ہے اور وہ فلسطینی والدین کی اولاد ہے۔

امریکی فوجی قانون میجر ندال حسن کو انتہائی سنگین واردات کے ارتکاب کے بعد اس کا اعتراف کرنے سے روکتا ہے۔ اب اعتراف کے بعد فوجی قانون اس کو ایک اور موقع فراہم کرے گا کہ وہ عدالت اور تیرہ رکنی جیوری کو قائل کرے کہ جو کچھ اس نے کیا ہے، اس پر اسے موت کی سزا نہ دے جائے۔ عدالت میں فورٹ ہُڈ شوٹنگ کے دوران بچ جانے والے بھی ملزم میجر حسن کے بیان پر جرح کریں گے اور ان کے سوالات کے جواب دینے کے علاوہ وہ جوابی سوالات بھی کر سکے گا۔

 فوجی عدالت کے جج کرنل ٹیرا اوسبورن (Tara Osborn) نے عدالتی کارروائی کے دوران میجر حسن پر واضح کیا کہ وہ عدالتی فورم  اپنے انتہا پسندانہ خیالات کو بیان کرنے کے لیے قطعاً استعمال نہیں کر سکتا اور کارروائی کے دوران شہادتوں کو نہایت ادب سے سنے اور جواب دے۔ میجر حسن کے یونٹ کے ایک اہلکار شان میننگ کو فورٹ ہڈ کی فائرنگ کے دوران چھ گولیاں لگی تھیں جس کا کہنا ہے کہ وہ شہادت دینے کے دوران ہونے والی جرح میں شوٹر کے رویے سے خوف محسوس کرتا ہے۔