1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

گینڈوں کے لیے ان کے سینگ پیغامِ اجل

18 مارچ 2013

گینڈے کا شمار بر اعظم افریقہ کے پانچ بڑے اور مقبول ترین جانوروں میں ہوتا ہے تاہم ان کے سینگ حاصل کرنے کے لیے انہیں بہت بڑے پیمانے پر ہلاک کیا جا رہا ہے۔ اس جانور کے تحفظ کے لیے بین الاقوامی سطح پر کوششیں کی جا رہی ہیں۔

https://p.dw.com/p/17zaJ
تصویر: Fotolia/tarei

جنوبی افریقہ میں شکاری ایک گینڈے کو شکار کرنے اور اُسے بعد میں ایک ٹرافی کے طور پر اپنے ساتھ لے جانے کی اجازت حاصل کرنے کے لیے بیس ہزار یورو تک کی بھی رقم ادا کرتے ہیں۔ تاہم ویت نام جیسے ملک میں ایک گینڈے کے لیے اس سے دگنی رقم مل سکتی ہے۔ وہاں اس جانور کی مانگ اس لیے زیادہ ہے کہ اس جانور کی ناک پر اُگے سینگوں کو معجزانہ طبی خصوصیات کا حامل سمجھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ چند برسوں سے گینڈے کے غیر قانونی شکار میں ڈرامائی اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔

حال ہی میں تھائی لینڈ کے دارالحکومت بنکاک میں انواع کے تحفظ کے موضوع پر ایک بین الاقوامی کانفرنس منعقد ہوئی، جس میں دیگر امور کے ساتھ ساتھ گینڈوں کے سینگوں کی تجارت کو محدود بنانے کے اقدامات پر بھی اتفاقِ رائے کیا گیا۔

افریقہ کے گینڈے بقا کے خطرے سے دوچار انواع میں شمار ہوتے ہیں کیونکہ اب اِن کی مجموعی تعداد صرف 25 ہزار رہ گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اِن کی تجارت پر پابندی عائد ہے۔ دوسری جانب اسی وجہ سے گینڈے کے سینگوں کی غیر قانونی تجارت بھی زوروں پر پہنچ گئی ہے، خاص طور پر جنوبی افریقہ میں، جہاں یہ جانور سب سے زیادہ پایا جاتا ہے۔

سینگوں کی بڑھتی مانگ کے باعث گینڈوں کو غیر قانونی طور پر ہلاک کیے جانے کے واقعات میں ڈرامائی اضافہ ہو رہا ہے
سینگوں کی بڑھتی مانگ کے باعث گینڈوں کو غیر قانونی طور پر ہلاک کیے جانے کے واقعات میں ڈرامائی اضافہ ہو رہا ہےتصویر: lion and rhino park

تحفظ ماحول کی علمبردار تنظیم ورلڈ وائڈ فنڈ فار نیچر WWF کے اعداد و شمار گزشتہ پانچ برسوں کے دوران افریقہ میں غیر قانونی طور پر ہلاک کیے جانے والے گینڈوں کی تعداد میں دَس گنا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

بقا کے خطرے سے دوچار انواع کے کنونشن CITES کے زیر اہتمام بنکاک منعقدہ کانفرنس میں نہ صرف سب سے زیادہ سینگ خریدنے والے ملک ویت نام کو بلکہ موزمبیق کو بھی ہدفِ تنقید بنایا گیا، جس کے راستے سینگوں کی سب سے زیادہ تجارت عمل میں آتی ہے۔ بنکاک کانفرنس میں اس تجارت کی اتنی واضح مذمت پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے WWF کی ترجمان سِلویا راٹسلاف کا کہنا تھا:’’یہ پہلا موقع ہے کہ CITES میں پہلی مرتبہ باقاعدہ نام لیے گئے۔ اب اِن دونوں ملکوں کے پاس اس مسئلے سے تعمیری طور پر نمٹنے کے لیے چند ماہ کا وقت ہے۔ موزمبیق ایک غریب ملک ہے لیکن CITES کے ضوابط کا اطلاق وہاں بھی ہوتا ہے۔ جہاں تک ویت نام کا تعلق ہے، وہاں اب تک سیاسی شعبہ بھی عملی اقدامات کے لیے آمادہ نہیں تھا۔‘‘

بڑی تعداد میں ہلاک کیے جانے کے باعث گینڈے بقا کے خطرے سے دوچار ہو چکے ہیں
بڑی تعداد میں ہلاک کیے جانے کے باعث گینڈے بقا کے خطرے سے دوچار ہو چکے ہیںتصویر: CC/Sabi Sabi Private Game Reserve

راٹسلاف نے مزید بتایا کہ ویت نامی سفارت خانوں کے ارکان خود بھی گینڈے کے سینگوں کی تجارت میں ملوث ہیں۔ اب ویت نام کو دباؤ کا سامنا ہے۔ اگر جنوری 2014ء تک افریقہ کے جنوبی ملکوں سے ان سینگوں کی درآمدات کے خلاف جنگ میں کوئی پیشرفت نہ ہوئی تو ویت نام کو اُن دیگر جنگلی جانوروں کی درآمدات کے سلسلے میں پابندیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، جنہیں CITES کنونشن کنٹرول کرتا ہے۔

سائنسی تحقیق نے یہ بات رَد کر دی ہے کہ ان سینگوں کو پیس کر تیار کیا جانے والا پاؤڈر بخار وغیرہ کی صورت میں آرام دیتا ہے یا پھر کینسر سے بچاتا ہے۔ ڈبلیو ڈبلیو ایف اور جانوروں کے تحفظ کے لیے کوشاں دیگر تنظیمیں اس تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے ویت نام میں ایک آگہی مہم بھی چلا رہی ہیں۔ لوگوں کو بتایا جاتا ہے کہ گینڈے کے یہ سینگ بھی اُسی مادے سے بنے ہوتے ہیں، جس سے ناخن یا پھر بال بنے ہوتے ہیں۔ پھر بھی ویت نامی شہری اِس پاؤڈر کے ایک کلوگرام کے لیے چالیس ہزار یورو سے بھی زیادہ کی رقم ادا کرتے ہیں گویا وہاں یہ پاؤڈر سونے سے بھی زیادہ قیمتی ہے۔

دوسری جانب جنوبی افریقہ کے ماہر حیاتیات ڈوآن بِگز کا خیال یہ ہے کہ اس طرح کی آگہی مہموں اور تجارت پر پابندی سے کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ بِگز اور تین مزید محققین نے CITES کانفرنس سے کچھ ہی پہلے جریدے ’سائنس‘ میں یہ مطالبہ کیا تھا کہ اس تجارت کو جلد از جلد قانونی شکل دے د ی جائے۔

گینڈے کے سینگ بھی ناخنوں کی طرح کاٹے جانے کے بعد دوبارہ اُگ آتے ہیں
گینڈے کے سینگ بھی ناخنوں کی طرح کاٹے جانے کے بعد دوبارہ اُگ آتے ہیںتصویر: AP

ڈوآن بِگز بتاتے ہیں:’’اب گینڈے کے سینگوں کا کافی بڑا ذخیرہ ہماری دسترس میں ہے اور قانونی تجارت کی اجازت دینے سے ہمیں کچھ مہلت مل جائے گی۔ اگر پھر بھی گینڈوں کی غیر قانونی ہلاکت کم نہ ہوئی تو پابندی تو پھر بھی عائد کی جا سکتی ہے۔ لیکن اگر ہم نے موجودہ روش جاری رکھی تو ایک وقت ایسا آئے گا کہ ہمارے پاس اُس موجودہ لائحہ عمل کے سوا اور کوئی متبادل ہی نہیں ہو گا، جو واضح طور پر ناکام ہو چکا ہے۔‘‘

ان سائنسدانوں کی تجویز یہ ہے کہ صرف یہ سینگ حاصل کرنے کے لیے گینڈوں کی افزائش کی جائے کیونکہ ناخنوں کی طرح یہ سینگ بھی دوبارہ اُگ آتے ہیں۔ آج کل بھی جنوبی افریقہ میں پچیس فیصد گینڈے نجی شعبے کے فارموں کی ملکیت ہیں، جنہیں قدرتی موت کا شکار ہونے والے گینڈوں کے سینگ بھی فروخت کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ بِگز کے مطابق ان سینگوں کی تجارت کی اجازت ملنے پر قیمتیں کم ہو جائیں گی اور اُن لوگوں کے لیے یہ تجارت پُر کشش نہیں رہے گی، جو اِس جانور کا غیر قانونی شکار کرتے ہیں۔

تاہم تحفظ ماحول کی علمبردار تنظیموں کو ڈر ہے کہ اس کی تجارت کی اجازت دینے سے ان سینگوں کی مانگ اور بھی بڑھ جائے گی اور اس جانور کو ہلاک کرنے کا رجحان بھی مزید شدت اختیار کر جائے گا۔

M.Braun/aa/zb