1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’ہزاروں روہنگیا مسلمان سمندر کے قیدی‘، امریکا بھی بول اٹھا

امجد علی3 جون 2015

امریکا نے کہا ہے کہ میانمار کی حکومت کو روہنگیا مسلمان اقلیت کے ساتھ وہی سلوک کرنا چاہیے، جو وہ اپنے باقی شہریوں کے ساتھ کرتی ہے اور یوں جنوب مشرقی ایشیا میں مہاجرت کے موجودہ بحران کی اصل جڑ کو ختم کرنا چاہیے۔

https://p.dw.com/p/1Fb87
Symbolbild Massengräber von Flüchtlingen in Malaysia
تصویر: picture-alliance/dpa/Y. Pruksarak

نیوز ایجنسی روئٹرز کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکا نے میانمار کے تمام سیاسی رہنماؤں پر زور دیا ہے کہ وہ انسانی حقوق کے معاملات میں آواز بلند کریں۔ اوباما کے دورِ صدارت میں میانمار میں جمہوری عمل کی ترویج کو بے پناہ اہمیت دی جا رہی ہے، ایسے میں واشنگٹن حکومت نے میانمار کی حکومت پر ایسے تمام تر مسائل کو حل کرنے کے لیے دباؤ بڑھا دیا ہے، جو اس ملک میں جمہوری عمل کی بحالی کی راہ میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔

ان مسائل میں اُن ہزاروں تباہ حال روہنگیا مسلمانوں کا مسئلہ بھی شامل ہے، جو آج کل پرانی اور شکستہ کشتیوں پر سوار سمندروں میں در بدر بھٹک رہے ہیں اور کوئی بھی ملک اُنہیں قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہو رہا۔ انسانی اسمگلروں کے خلاف تھائی حکومت کا کریک ڈاؤن شروع ہونے کے بعد سے چار ہزار سے زیادہ روہنگیا مہاجرین میں سے زیادہ تر انڈونیشیا، ملائیشیا، تھائی لینڈ اور میانمار پہنچے ہیں جبکہ باقی بدستور سمندروں کی بے رحم لہروں کے رحم و کرم پر محوِ سفر ہیں۔

میانمار میں روہنگیا اقلیت کی آبادی کا اندازہ ایک اعشاریہ ایک ملین لگایا گیا ہے تاہم وہاں کی حکومت انہیں اپنا شہری تسلیم نہیں کرتی اور یوں عملاً یہ مسلمان کسی بھی ملک کی شہریت نہیں رکھتے۔ میانمار کی راکھین ریاست میں آباد اس مسلمان اقلیت کو مقامی بودھ آبادی کی طرف سے انتہائی شدید امتیازی سلوک اور ناقابلِ تصور مظالم کا سامنا ہے جبکہ میانمار کی حکومت کا موقف یہ ہے کہ روہنگیا کے ساتھ کوئی امتیازی سلوک ر وا نہیں رکھا جا رہا۔

انڈونیشی دارالحکومت جکارتہ میں میانمار کا پرانا نام استعمال کرتے ہوئے نائب امریکی وزیر خارجہ این رچرڈ نے کہا، ’’روہنگیاز کے ساتھ برما کے شہریوں کا سا سلوک کیا جانا چاہیے، اُنہیں شناختی کارڈ اور پاسپورٹ جاری کیے جانے چاہییں تاکہ یہ بات واضح ہو کہ باقی شہریوں کی طرح وہ بھی میانمار کے شہری ہیں۔‘‘

رواں ہفتے پیر کو اوباما نے کہا تھا کہ اگر میانمار اپنے جمہوری عمل کو کامیاب بنانا چاہتا ہے تو پھر اُسے روہنگیا آبادی کے خلاف امتیازی سلوک بند کرنا چاہیے۔ جکارتہ میں نائب امریکی وزیر خارجہ این رچرڈ نے کہا کہ میانمار کے سیاستدانوں کی ساری توجہ نومبر میں مجوزہ عام انتخابات پر مرکوز ہے اور یہی وجہ ہے کہ روہنگیا کے تشخص کے بارے میں سیاسی بحث مباحثے میں رکاوٹ پیش آ رہی ہے۔ نوبل امن انعام یافتہ خاتون لیڈر آنگ سان سُوچی بھی روہنگیا باشندوں کے معاملے پر یہ سوچ کر خاموش ہیں کہ کچھ کہنے کی صورت میں مقامی بودھ آبادی انتخابات میں ووٹ نہ دے کر اُن کی جماعت کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔ این رچرڈ نے کہا کہ میانمار کے تمام سیاستدانوں کو روہنگیا اقلیت کے حق میں آواز بلند کرنی چاہیے کیونکہ ’کشتیاں دسمبر تک انتظار نہیں کریں گی، روہنگیاز کو ابھی اور اسی وقت مدد درکار ہے‘۔

USA - US-Vize-Außenministerin Anne Richard
نائب امریکی وزیر خارجہ این رچرڈتصویر: STR/AFP/Getty Images

این رچرڈ ایک مرتبہ راکھین ریاست کا دورہ بھی کر چکی ہیں۔ اُسی دورے کا حوالہ دیتے ہوئے اُنہوں نے جکارتہ میں صحافیوں کو بتایا کہ وہاں اُنہیں جبر کا ایک ایسا ماحول نظر آیا تھا، جو اُنہوں نے اپنے کسی بھی بیرونی سفر میں نہیں دیکھا۔

این رچرڈ نے کہا کہ امریکا میانمار پر کوئی پابندیاں عائد نہیں کرنے جا رہا تاہم پابندیوں کا ہتھیار استعمال کرنے کا امکان ہر وقت موجود رہتا ہے۔ ابھی بھی میانمار کے خلاف کچھ پابندیاں بدستور جاری چلی آ رہی ہیں۔

این رچرڈ نے نہ صرف بنکاک میں گزشتہ جمعے کو روہنگیا مہاجرین کے موضوع پر منعقدہ بین الاقوامی کانفرنس میں امریکا کی نمائندگی کی بلکہ وہ اسی سلسلے میں ملائیشیا اور انڈونیشیا کے دورے بھی کر چکی ہیں۔ اُنہوں نے توقع ظاہر کی کہ میانمار سات سو سے زیادہ مہاجرین کی اُس کشتی کو ساحل تک آنے دے گا، جسے میانمار کی بحریہ نے روک رکھا ہے اور ساحل کے قریب نہیں آنے دی رہی۔

یہ کشتی گنجائش سے زیادہ مسافروں سے کھچا کھچ بھری ہوئی ہے۔ این رچرڈ کے مطابق اس کشتی میں سوار بنگلہ دیشی شہریوں کو اُن کے وطن بنگلہ دیش بھیج دیا جائے گا۔ واضح رہے کہ اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق غربت سے تنگ آئے ہوئے سینکڑوں بنگلہ دیشی شہری بھی روہنگیا باشندوں کے ساتھ کشتیوں پر سوار ہو کر در بدر ہیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید