1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

030309 Zivilgesellschaft

رفعت سعید، کراچی / کشور مصطفیٰ3 مارچ 2009

ہر سال 5 لاکھ خواتین دنیا بھر میں دورانِ زچگی ہونے والی پیچیدگیوں کے باعث موت کا شکار ہو جاتی ہیں۔

https://p.dw.com/p/H4kw
اقوام متحدہ کا نشان

آج بھی دنیا بھر خصوصاً جنوبی ایشیاء کے ممالک میں ایسے لاکھوں افراد بستے ہیں جو کہ خاندانی منصوبہ بندی کے محفوظ طریقوں سے یا تو یکسر ناواقف ہیں یا پھر یہ آسان اور ارزاں طریقے ان کی پہنچ سے باہر ہیں ۔

یہی وجہ ہے کہ اقوام متحدہ کے ملینیم ڈیولپمنٹ گول میں جہاں دیگر مسائل اور ان سے نمٹنے کے اہداف مقرر کئے گئے ہیں وہیں Maternal Motility یعنی دوران زچگی ماؤں کی شرح اموات پر قابو پانے کی کوشش کی جا رہی ہےـ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق اس طرح کی اموات کو کم کرنے کے لئے 2015 تک اہداف پورے کرنے ہوں گے۔

ملک کی ممتاز ماہر زچہ و بچہ ڈاکٹر نگہت شاہ نے ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے Maternal Mortality اور پاکستان میں اس کی وجوہات بتاتے ہوئے کہا کہ Maternal Mortality ایسی عورت کی موت کو کہتے ہیں جو زچگی یا بچے کی پیدائش کے بعد 42 دنوں میں ہلاک ہو جاتی ہےـ ان ہلاکتوں میں اسقاط حمل بھی آ جاتا ہےـ ان کا کہنا ہے کہ زچگی کے دوران بعض خواتین ڈپریشن کا شکار ہو جاتی ہیں جبکہ مغرب میں ڈپریشن کے علاوہ حاملہ خواتین میں خودکشی کا رجحان بھی پایا جاتا ہےـ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں Maternal Mortality کی وجوہات امریکہ اور مغربی ممالک سے ذرا مختلف ہیں۔

پاکستان ہندوستان اور بنگلہ دیش میں زچگی کے دوران اموات کی وجوہات خواتین میں خون کے خلیوں میں کمی، بلڈپریشر اور جلدی جلدی بچوں کی پیدائش بھی موت کی ایک بڑی وجہ ہےـ

ڈاکٹر نگہت شاہ کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں خاص طور پر ترقی پذیر، غربت اور قدامت پرستی کا شکار معاشروں میں تولیدی صحت کے تصور کو اور اس کی اہمیت کو نہ صرف عام کیا جائے بلکہ رسائی نہ رکھنے والے افراد تک ان کی پہنچ کو آسان بنایا جائےـ

Flüchtlingslager in Pakistan
پاکستان میں دوران زچگی ماؤں کی اموات ایک بڑا مسئلہ ہےتصویر: AP

کیا پاکستان نے ملینم ڈویولپمنٹ گول کے تحت دوران زچگی ماؤں کی شرح اموات پر قابو پانے کے اہداف حاصل کر لئے ہیں؟ یہ سوال جب ڈاکٹر نگہت شاہ کے سامنے رکھا گیا تو ان کا جواب تھا کہ ابھی یہ کہنا مشکل ہے ماں اور بچے دونوں کی زندگی محفوظ بنانا ایک ضروری امر ہے۔ ڈاکٹر شاہ کہتی ہیں کہ ملک بھر میں ہسپتال، صحت کی بنیادی سہولتیں فراہم کرنے والے زچہ و بچہ مراکز کام تو ضرور کر رہے ہیں لیکن ان مراکز میں بنیادی سہولتیں مؤثر نہیں ہیں۔ دیہاتی عورت ان سہولتوں سے ناصرف نابلد ہے بلکہ محروم ہیں بلکہ یہ کہنا درست ہوگا کہ دیہاتی عورت کا پورا خاندان ہی صحت کی بنیادی سہولتوں سے ناواقف اور محروم ہے۔ تمام اقدامات کے باوجود مطلوب نتائج حاصل نہیں ہو رہے۔Maternal Mortality اصل تعلق براہ راست غربت سے ہے۔

انہوں نے کہا کہ خطہ میں سری لنکا کا شمار بھی غریب ممالک میں ہوتا ہے مگر ان کا معیار تعلیم بہت بہتر ہےـ جب ڈاکٹر شاہ سے پوچھا کہ بچوں کی پیدائش کے دوران ماؤں کی شرح اموات کو کیسے کم کیا جاسکتا ہے تو ان کا جواب تھا کہ ہزاریہ اہداف میں اموات کی کمی کے لئے تجاویز اور اہداف مقرر تھے مگر اس میں خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہوسکتی ہے۔

اقوام متحدہ کی جاری کردہ رپورٹس کے مطابق امیر اور غریب طبقہ کی خواتین میں دوران زچگی اموات کے اعداد و شمار میں واضح فرق محسوس ہوتا ہے جس کی معاشی اور سماجی وجوہات ہیں لیکن غربت اور حاملہ خواتین کی بچے کی پیدائش کے مراحل سے عدم واقفیت اہم وجہ ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ملینیم ڈیولپمنٹ گول میں بچے کی پیدائش کے دوران ماؤں کی اموات پر قابو پانے کے لئے دیگر اقدامات کے ساتھ تربیت یافتہ عملے اور صحت کے مراکز کے قیام پر بھی توجہ دینا ہوگی۔

دوسری جانب National Maternal,Neonatal and child Health Programme کے مینیجر ڈاکٹر زاہد لاڑک کا کہنا ہے کہ پاکستان اپنے پڑوسی ممالک مثلا بنگلہ دیش اور نیپال کے مقابلے میں اقوام متحدہ کے ملینیم ڈیویلپمنٹ گولز میں سے ایک اہم ہدف Maternal Mortality یعنی دوران زچگی ماؤں کی شرح اموات پر قابو پانے کے لئے طے شدہ ہدف کے نزدیک پہنچنے میں زیادہ کامیاب ہوسکتا ہے۔ اس بارے میں ڈوئچے ویلے کو ایک خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے ڈاکٹر لاڑک نے کہا کہ پاکستان میں 1994 میں ایک خصوصی پروگرام لیڈی ہیلتھ ورکرز پروگرام شروع ہوا تھا اس کا بھی یہی مینڈیٹ تھا کہ لیڈی ہیلتھ ورکرز خواتین کو صحت اور خاندانی منصوبہ بندی کے بارے تعلیمی اور تربیتی سہولیات فراہم کریں گی تاکہ ان میں شعور اور صحت کے بنیادی اصولوں کی آگاہی آ سکے۔

A Rohingya mother and her child in a makeshift camp in Teknaf
جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک بھی اس مسئلے کا شکار ہیںتصویر: DW

ڈاکٹر لاڑک کے مطابق لیڈی ہیلتھ پروگرام کے تحت کروائے جانے والے سروے سے یہ پتہ چلا کہ پاکستان کے نسبتا پسماندہ علاقوں میں حاملہ خواتین کو ضروری طبی سہولیات تک میسر نہیں ہیں۔ اکثر ہسپتالوں میں ڈاکٹر تک موجود نہیں ہوتے۔ زیادہ تر خواتین اپنے بچوں کو گھروں میں جنم دیتی ہیں۔

ان نقائص کے پیش نظر حکومت پاکستان نے ڈیڑھ سال قبل National Maternal,Neonatal and child health programme شروع کیا ہے۔ ڈاکٹز زاہد لاڑک نے بتایا کہ پاکستان میں ایک اور اہم پروجیکٹ متعارف کروایا جا رہا ہےSkilled workers attendents۔ کمیونٹی مڈ واؤز کو ٹرین کیا جائے گا کہ وہ گھروں میں بچوں کی پیدائش کو حفظان صحت اور طبی اصولوں کے مطابق بہتر سے بہتر طریقے سے ممکن بنائیں۔ پانچ ہزار مڈ واؤز کو حکومت تربیت دے رہی ہے اور 5 ہزار سے زائد مڈ واؤز کی تربیت میں UNECEF,UNFPA اور Save the

children وغیرہ مدد کر رہی ہیں۔ اس پروگرام کے تحت تربیت کم از کم 17 ہزار مڈ واؤز مستقبل میں Skilled Attendentsکے طور پر خدمات انجام دی سکیں گی۔