1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یرغمال تفریح گاہیں

24 اپریل 2024

شہروں کی اب زیادہ تر تفریح گاہوں میں اب ایک اذیت پسند مخلوق کے غول کےغول موجود ہوتے ہیں، جو وہاں بد تہذیبی کے ریکارڈ قائم کرنے کے لیے موجود ہوتی ہے۔ اب یہ مقامات تفریح کے بجائے کوفت کا ایک سامان بن چکے ہیں۔

https://p.dw.com/p/4f8dp
DW Urdu Bloger Swera Khan
تصویر: Privat

تہواروں کے موقع پر جہاں سب اپنے مل بیٹھتے ہیں، مصروف معمولات سے کچھ فرصتیں میسر ہوتی ہیں، ایک دوسرے سے زندگی کی گزران کہی جاتی ہے، کچھ گلے شکوے ہوتے ہیں، کچھ ہنسی خوشی کی باتیں ہوتی ہیں۔ وہیں اس ملن رت کا بہانہ خاطر تواضع کے لیے سجائی گئی دعوتیں بھی ہوتی ہیں اور کبھی خاندان والوں کا یہ اکٹھ کہیں باہر گھومنے پھرنے کے واسطے کوئی پروگرام بھی بنا لیتا ہے۔

مگر ٹھیریے،

یہ تو ساری گئے وقتوں کی باتیں تھیں، جب ہم گھر بھر کے افراد بالخصوص بچے لوگ خصوصی تہواروں پر بڑے اہتمام سے شہر کے چڑیا گھر، دریاؤں کے کنارے، یا کسی فن لینڈ جایا کرتے تھے اور وہاں بے شمار افراد اپنے اہل خانہ کے ہمراہ اپنی خوشیوں کو دو بالا کرنے کے لیے موجود ہوتے تھے۔ اب ایسا سوچنا بھی محال ہے، کیوں کہ بڑے شہروں میں تفریح گاہوں میں اب ایک اذیت پسند مخلوق کے غول کے غول موجود ہوتے ہیں، جو وہاں بد تہذیبی کے ریکارڈ قائم کرنے کے لیے موجود ہوتی ہے۔ شہروں میں رہنے کے باوجود وہ کسی تہذیب کو نہیں سیکھ پائے ہوتے۔ ایسے میں اگر غلطی سے کوئی فیملی اس تفریح گاہ کی سمت آ نکلے تو انہیں اس مخلوق کی ہوٹنگ اور واہیات جملے بازیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جس کے نتیجے میں تفریح بجائے لطف کے، ایک کوفت کا سامان بن جاتی ہے۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ اس موقع پر شہر کی پولیس اور قانون نافذ کرنے والے دیگر ادارے بھی بالکل غائب دکھائی دیتے ہیں اور وہ پولیس اہل کار جو عام دنوں میں تفریحی مقامات پر آنے والے جوڑوں کو تنگ  کر رہے ہوتے ہیں، وہ اس سنگین صورت حال میں بہت دور دور تک دکھائی ہی نہیں دیتے۔ شریف آدمی تہوار کے روز کسی بد مزگی یا نا خوش گوار واقعے سے بچنے کی غرض سے عزت سے واپس گھر لوٹنے ہی کو ترجیح دیتا ہے۔

یہ مخلوق اس حد تک نفسیاتی ہے کہ شریف شہریوں کی اذیت سے حظ اٹھاتی ہے اور ان کی بے بسی کا مزہ لیتی ہے۔ کہاں وہ دور تھا کہ خواتین اور اہل خانہ کے ساتھ آنے والوں کے لیے بد زبان آدمی بھی اپنی زبان کا خیال کیا کرتے تھے، لیکن جیسے جیسے شہر پھیل رہے ہیں، ویسے ویسے یہ ادب و آداب بھی قصہ پارینہ بنتے جا رہے ہیں۔ ان کے اپنے اہل خانہ تو دوسرے شہر، مضافات میں ہوتے ہیں اور یہ دوسرے شہروں میں لوگوں کو ہراساں کر کے پسماندہ ذہن کو تسکین دے رہے ہوتے ہیں۔ ایسے میں اگر غلطی سے کوئی لڑکی یا لڑکیوں کا گروپ اکیلے کسی تفریح گاہ کا رخ کر لے تو پھر بس یوں سمجھیے کہ اللہ ہی حافظ ہے ان کا۔

کراچی سے لے کر لاہور تک۔ کہیں کم اور کہیں زیادہ۔ اب تہواروں پر یہ شکایات بڑھتی جا رہی ہیں، لیکن حکام کی طرف سے اس مسئلے کی جانب کوئی توجہ نہیں دی جا رہی۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ عید اور دیگر اہم مواقع پر پولیس کو فعال کیا جائے تا کہ وہ ایسے تفریحی مقامات پر گشت کرے اور تفریح گاہوں کو یرغمال بنانے والے ان انسان نما لوگوں سے شہر والوں اور ان کی بہن بیٹیوں کو محفوظ رکھیں۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔