1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یورپ میں مہاجرین کا بحران دراصل کتنا بڑا ہے؟

عاطف توقیر6 اکتوبر 2015

میڈیا اور سیاسی رہنما مہاجرین کی یورپ آمد کو دوسری عالمی جنگ کے بعد پناہ گزینوں کا سب سے بڑا بحران قرار دے رہے ہیں، تاہم بعض مؤرخین کے مطابق یہ بات درست نہیں ہے۔

https://p.dw.com/p/1GjUw
Kroatien Bapska Flüchtlingslager Erstaufnahmeeinrichtung
تصویر: picture-alliance/ABACAPRESS/M. Amoruso

مہاجرین کی تعداد کے حوالے سے کوئی حتمی بات یوں نہیں کہی جا سکتی، کیوں کہ ان تارکین وطن کی یورپ آمد ابھی جاری ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین (UNHCR) کے مطابق شامی بحران کی موجودگی میں بحیرہء روم عبور کر کے یورپ آنے والوں کی تعداد میں کمی فی الحال دکھائی نہیں دیتی۔

اس یورپی بحران سے متعلق سیاست دانوں کے دعوے اور میڈیا کے اعداد و شمار سے قطع نظر مؤرخین کی رائے ایک نئی سمت کو جاتی دکھائی دیتی ہے۔

مؤرخین اس بات سے بالکل متفق دکھائی نہیں دیتے کہ مہاجرین کی یورپ آمد دوسری عالمی جنگ کے بعد کا ’بدترین بحران‘ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عالمی جنگ کے فوراﹰ بعد سن 1940کی دہائی کے آخر میں یورپ میں بڑے پیمانے پر نقل مکانی ہوئی تھی۔ یونیورسٹی آف مشی گن سے وابستہ اور مہاجرین کے امور کی ماہر پامیلا بیلِنگر کے مطابق تاریخی اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد قریب 11 ملین جرمن باشندوں کو یورپ کے مختلف علاقوں سے ملک بدر کیا گیا تھا۔

Flüchtlinge Grenzgebiet Türkei Syrien
ہزاروں مہاجرین حالیہ کچھ ماہ میں یورپ پہنچے ہیںتصویر: picture-alliance/dpa/V. Gurgah

اسی طرح عالمی جنگ کے بعد مختلف ممالک میں رہنے والے تقریباﹰ دو ملین روسی باشندوں کو سوویت یونین واپس پہنچنے کے احکامات جاری ہوئے جب کہ عالمی جنگ کے دور میں ہی سوویت یونین میں رہنے والے لاکھوں یہودیوں کو بھی جنگ ختم ہونے کے بعد نقل مکانی پر مجبور کیا گیا تھا۔

مؤرخین کے مطابق گزشتہ تین برسوں میں افریقہ اور مشرق وسطیٰ سے ہجرت کر کے یورپ پہنچنے والے افراد کی تعداد اب بھی ایک ملین سے کم ہے۔

صرف یورپی تاریخ ہی کو دیکھ لیں تو سن 1991ء (جب یورپی یونین کی تخلیق کے معاہدے پر ماسٹرشٹ میں دستخط ہوئے تھے) سے لے کر اب تک کے عرصے کے لیے ’بدترین بحران‘ کی اصطلاح درست ہو سکتی ہے اور وہ بھی تب، اگر اس میں بوسنیا کی جنگ کو شامل نہ کیا جائے۔

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے مطابق سن 1992 تا 1995 جاری رہنے والی بوسنیا کی جنگ کی وجہ سے یورپ نے دوسری عالمی جنگ کے بعد کا مہاجرین کا سب سے بڑا بحران دیکھا تھا۔ اس دوران بوسنیا سے کم از کم ڈھائی ملین افراد اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے تھے، جن میں بوسنیا کے اندر بے گھر ہو کر دیگر علاقوں کی جانب منتقل ہونے والے افراد کی تعداد ایک اعشاریہ تین ملین تھی جب کہ پانچ لاکھ ہمسایہ ممالک اور دیگر سات لاکھ مغربی یورپ منتقل ہوئے تھے۔

امریکا اور مغربی یورپی طاقتوں نے ابتدا میں تو بوسنیا کے معاملے کو نظرانداز کیا تھا، تاہم بعد میں بھرپور کارروائی اور مؤثر سیاسی حل کی وجہ سے نہ صرف یہ معاملہ نمٹا دیا گیا، بلکہ اس کی وجہ سے مہاجرین کا بحران بھی رفتہ رفتہ ختم ہو گیا۔ تاہم شام میں خانہ جنگی کو چار برس سے زائد گزر جانے کے باوجود یہ مسئلہ دور دور تک حل ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے مطابق دوسری عالمی جنگ کے بعد کی سب سے بڑی ہجرت ہندوستان کی تقسیم اور پاکستان کے قیام کے وقت ہوئی تھی، جب قریب 14 ملین افراد کو نقل مکانی کرنا پڑی تھی۔ ان میں بھارت کے حصے میں آنے والے علاقوں سے مسلمانوں کی پاکستان کی جانب ہجرت اور پاکستانی علاقوں سے ہندوؤں کی ہجرت شامل تھی۔

سن 1971ء میں مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) میں خانہ جنگی کی وجہ سے بھی دس ملین افراد بے گھر ہوئے تھے۔

اسی طرح اسرائیل کے قیام کی وجہ سے قریب ساڑھے سات لاکھ فلسطینیوں کو نقل مکانی کرنا پڑی تھی، جب کہ فلسطینی علاقوں سے تعلق رکھنے والے اور مختلف مہاجر بستیوں میں رجسٹرڈ فلسطنیی مہاجرین کی تعداد اب بھی تقریباﹰ پانچ ملین ہے۔

مؤرخین کے مطابق شامی خانہ جنگی سے دوچار ہونے والے تقریباﹰ چار ملین مہاجرین نے ابھی یورپ کا رخ نہیں کیا، بلکہ وہ شام کے ہمسایہ ممالک میں رکے ہوئے ہیں جب کہ ساڑھے سات ملین کے قریب شامی باشندے ملک کے اندر ہی نقل مکانی پر مجبور ہو چکے ہیں۔