1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یوم عاشور: کربلا میں لاکھوں افراد کی آمد

امتیاز احمد4 نومبر 2014

’اسلامک اسٹيٹ‘ کی طرف سے خود کش حملوں کے خطرے کے باوجود لاکھوں شیعہ زائرین یوم عاشور منانے کے لیے کربلا پہنچے ہیں۔ دوسری جانب کسی بھی ممکنہ خطرے سے نمٹنے کے لیے آج عراق بھر میں سکیورٹی ہائی الرٹ ہے۔

https://p.dw.com/p/1Dgdr
تصویر: picture-alliance/dpa

عراق میں انتہا پسند گروپ آئی ایس کے اثر و رسوخ میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس ملک میں یوم عاشور کے موقع پر پرتشدد کارروائیوں کا سب سے زیادہ خطرہ ہے۔ مقامی اور دوسرے ملکوں سے عراق جانے والے زائرین کی حفاظت کے لیے سکیورٹی کے سخت ترین اقدامات کیے گئے ہیں۔ کربلا شہر میں کاروں کا داخلہ عارضی طور پر ممنوع قرار دے دیا گیا ہے جبکہ زائرین کو خصوصی بسوں کے ذریعے امام حسين کے مزار تک لایا جا رہا ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق سکیورٹی کی صورتحال کو برقرار رکھنا عراق کے نئے وزیراعظم حیدر العبادی اور ان کی حکومت کے لیے ایک بڑا امتحان ہے۔ کربلا کے گورنر عقیل الطریحی کا نیوز ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’ امام حسین کی شہادت کی یاد منانے کے لیے لاکھوں زائرین کربلا پہنچے ہیں، زائرین کا تعلق عراق کے مختلف صوبوں سميت عرب اور دیگر ملکوں سے ہے۔‘‘

عراق میں سن 2004ء کے بعد سے کربلا میں سکیورٹی انتہائی سخت رکھی جاتی ہے۔ اسی برس ایک خودکش حملہ آور نے خود کو ماتمی جلوس میں گھس کر دھماکا خیز مواد سے اڑا لیا تھا، جس کے نتیجے میں کم ازکم 171 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

عراق میں صدام حسین کے دور حکومت میں اس طرح کے سر عام ماتمی جلوسوں پر پابندی عائد تھی۔ سن 2003ء میں صدام حکومت کے خاتمے کے بعد سے عراق میں اتنے بڑے پیمانے پر ماتمی جلوس نکالے جانے لگے۔ سن 2006ء اور 2007ء میں فرقہ وارانہ تشدد اس قدر بڑھ چکا تھا کہ یہ ملک خانہ جنگی کے دہانے تک پہنچ گیا تھا۔ تین ماہ پہلے عراق کے نئے وزیراعظم نے عہدہ سنبھالتے ہی یہ اعلان کیا تھا کہ وہ ملک میں پائی جانے والی فرقہ وارانہ تقسیم کے خاتمے کے لیے ہر ممکن کوشش کریں گے۔

دوسری جانب اس موقع پر ایران اور لبنان میں بھی لاکھوں افراد ماتمی جلوسوں میں شریک ہوئے۔ لبنانی شہر بیروت میں نکالی گئی ايک ریلی میں حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ شام میں سُنی جہادی گروپوں کے خلاف ’فتح‘ حاصل کر چکے ہیں۔ حسن نصراللہ کا کہنا تھا کہ ان انتہا پسندوں کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔ حزب اللہ نے اپنے ہزاروں جنگجو شام میں صدر بشارالاسد کی مدد کے لیے بھیج رکھے ہیں۔