کیا تیسرے امن مذاکرات جرمنی میں ہوں گے؟ | معاشرہ | DW | 26.03.2019
  1. Inhalt
  2. Navigation
  3. Weitere Inhalte
  4. Metanavigation
  5. Suche
  6. Choose from 30 Languages

معاشرہ

کیا تیسرے امن مذاکرات جرمنی میں ہوں گے؟

 افغان وزیر خارجہ کے بقول کابل حکومت کے لیے خواتین کے حقوق کا موضوع  امریکا اور طالبان کے ساتھ امن مذاکرات میں بھی کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔

افغان وزیر خارجہ کے مطابق،’’خواتین کے حقوق کے لیے افغان حکومت کو امریکا اور طالبان کے درمیان امن مذاکرات میں ایک واضح لکیر کھینچنا ہوگی‘‘۔

افغان وزیر خارجہ صلاح الدین ربانی نے جرمن ’روزنامہ بلڈ‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا،’’لڑکیوں کے اسکول جانے پر کوئی پابندی نہیں ہونی چاہیے۔  وہ سب کچھ، جس کی تعمیر میں اٹھارہ سال لگ گئے ہیں ہمیں اس پر سمجھوتہ نہیں کرنا چاہیے۔‘‘ انہوں نے اس موقع پر قطر میں طالبان کے ساتھ امن بات چیت کی بھرپور حمایت کی۔

افغان وزیر خارجہ کے بقول ان  تمام تنازعات اور مسائل کو ختم کرنے کے لیے مذاکرات ہی بہترین حل ہیں،’’ میں یہ بات واضح کر دوں کہ امن مذاکرات کا قطعی یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم  ہمت ہار گئے ہیں یا ہم کمزور ہیں۔ یہاں ہم ملک میں طالبان کی حکومت کی بحالی کی بات نہیں کر رہے۔‘‘

’روزنامہ بلڈ سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا ،’’اگر ہمارے ملک میں امن، استحکام اور غیر ملکی زرمبادلہ موجود ہو تو لوگ افغانستان چھوڑ کر کبھی بھی جرمنی نہیں جائیں گے۔ لوگوں کو یہاں روکنے کے لیے بہت ضروری ہے کہ دیرپا امن کے قیام کے لیے اقدامات کیے جائیں۔‘‘

جبکہ دوسری جانب طالبان  صدر اشرف غنی کے ساتھ مذاکرات کرنے سے گریزاں ہیں۔ اُدھر امریکی مطالبات میں بار بار اس بات کو دہرایا گیا ہے کہ افغان داخلی معاملات  میں کابل حکومت کو شامل کیا جانا چاہیے۔

سولہ مارچ کو دوحہ میں ختم ہونے والے امن مذاکرات  کے متعلق خصوصی امریکی نمائندے زلمے خلیل زاد کا کہنا تھا،’’ترقی کا سفر جاری ہے اور مزید ترقی ہونا ابھی باقی ہے۔‘‘

افغان وزیر خارجہ صلاح الدین ربانی نے جرمن وزیر خارجہ سے تیسری امن کانفرنس جرمنی میں کرانے کی درخواست کی۔ جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس کے مطابق،’’جرمنی امن عمل کو خوش آمدید کہنے کو تیار ہے۔ افغان حکومت نے اس اقدام کو خوش آئند قرار دیا ہے اور کہا ہے،’’وقت آنے پر ہم اپنے جرمن دوستوں سے رابطہ کریں گے۔‘‘   

DW.COM