1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی کو سالانہ لاکھوں تارکین وطن کی ضرورت ہے

12 فروری 2019

ايک تازہ مطالعے کے نتائج سے يہ پتہ چلا ہے کہ روزگار کی منڈی ميں ملازمتيں پُر کرنے کے ليے جرمنی ميں آئندہ کئی برسوں کے ليے سالانہ بنيادوں پر 260,000 تارکين وطن کی ضرورت ہو گی۔

https://p.dw.com/p/3DEFc
Deutschland Frankfurt - Ausbildung von Flüchtlingen
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Arnold

جرمن معيشت کو درکار افرادی قوت يورپی يونين کے رکن ممالک سے جرمنی پہنچنے والے تارکين وطن سے پوری نہيں ہو گی۔ جرمن اقتصاديات کو مجموعی طور پر سالانہ 260,000 تارکين وطن درکار ہيں، جن ميں سے يورپی يونين کے رکن ممالک سے ہونے والی ہجرت کے علاوہ بلاک کے باہر کے ملکوں سے بھی سالانہ 146,000 تارکين وطن درکار ہوں گے۔ يہ انکشاف جرمن ’بيرٹلسمين فاؤنڈيشن‘ کے ايک تازہ مطالعے ميں کيا گیا ہے، جس کے نتائج منگل بارہ فروری کو شائع ہوئے۔

جرمنی کو ’ايجنگ پاپوليشن‘ کے مسئلے کا سامنا ہے يعنی يہاں لوگوں کی اوسط عمر زيادہ ہے اور نتيجتاً کم عمر افراد کی تعداد کم ہے۔ اگر اميگريشن کے ذريعے مطلوبہ اہداف تک نہ پہنچا گيا يا تارکين وطن کی آمد نہ ہو سکی، تو سن 2060 تک جرمنی ميں ملازمت کرنے کے اہل افراد کی تعداد موجودہ تعداد کے مقابلے ميں ايک تہائی تک گھٹ کر صرف سولہ ملين رہ جائے گی۔ اس کے دنيا کی چوتھی سب سے بڑی معيشت کے حامل اس ملک پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہيں۔

’بيرٹلسمين فاؤنڈيشن‘ کے جائزے کے مطابق ايسی کسی ممکنہ صورتحال سے بچنے کے ليے سن 2060 تک سالانہ بنيادوں پر کُل 260,000 تارکين وطن درکار ہوں گے۔ توقع ہے کہ سالانہ 114,000 تارکين وطن يورپی يونين کے باہر کے ملکوں سے آئيں گے جبکہ چند داخلی وجوہات کی بناء پر يورپی بلاک کے رکن ممالک سے آنے والے تارکين وطن کے ليے جرمنی ميں کشش کم ہو جائے گی۔

'بيرٹلسمين فاؤنڈيشن‘ کے ايگزيکيٹو ڈائريکٹر يورگ ڈريگر نے بتايا کہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سن 2017 ميں ملازمت کی غرض سے آنے والے صرف اڑتيس ہزار تارکين وطن نے مستقل بنيادوں پر جرمنی ميں رہائش اختيار کی۔ اس معالعے ميں جرمن حکومت کو تجويز دی گئی ہے کہ اميگريشن کے قوانين ميں اصلاحات متعارف کرائی جائيں تاکہ اعلٰی اور درميانے درجے کی پيشہ وارانہ صلاحيتوں کے حامل افراد کے ليے دروازے کھل سکيں۔ اس اسٹڈی ميں انضمام سے متعلق پروگراموں کی ضرورت پر بھی زور ديا گيا ہے۔

ع س / ع ا، نيوز ايجنسياں