1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمن عدالت نے بلدیہ ٹاؤن فیکٹری سے متعلق مقدمہ خارج کر دیا

10 جنوری 2019

ایک جرمن عدالت نے ایک پاکستانی گروپ کی جانب سے بلدیہ ٹاؤن فیکٹری میں آتش زدگی سے متاثرہ افراد کی جانب سے ہرجانے کا دعویٰ مسترد کر دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/3BJLi
Fabrikbrände in Pakistan
تصویر: Getty Images

اس واقعے میں بچ جانے والے ایک شخص اور ہلاک شدگان کے تین خاندانوں کی جانب سے جرمن ادارے کِک سے کہا گیا تھا کہ وہ فی خاندان تیس ہزار یورو ادا کرے۔ اس واقعے میں ڈھائی سو سے زائد افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

کراچی: سانحہ بلدیہ ٹاؤن کا مطلوب ملزم تھائی لینڈ سے گرفتار

کراچی کی فیکٹری میں آتش زدگی:KIK کی جرمن عدالت میں پیشی
اس واقعے میں مدعی 49 سالہ پاکستانی سعیدہ خاتون، 62 سالہ محمد جابر اور 62 سالہ عبدالعزیز خان تھے۔ ان تینوں افراد کے بیٹے فیکٹری میں آتش زدگی کے نتیجے میں ہلاک ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ 26 سالہ محمد حنیف بھی مدعیوں میں شامل تھے، جو اس واقعے میں بچ گئے تھے۔
سعیدہ خاتون نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں کہا، ’’مجھے بہت افسوس ہے کہ عدالت نے ہماری بات نہیں سنی۔ ہم نے سن 2012 کی آتش زدگی میں اپنے بچے کھو دیے۔ لگتا یوں ہے کہ کسی کو غریب مزدوروں کا خیال نہیں ہے۔ یہ فیصلہ کمپنیوں کے حق میں ہے۔ مگر میں اپنے حقوق کی لڑائی ختم نہیں کروں گی۔‘‘
ڈورٹمنڈ کی عدالت کے مطابق پاکستانی قانون کے تحت اس واقعے کے بعد ہرجانے کے دعوے کے لیے طے شدہ وقت گزر چکا ہے۔ 
پاکستانی گروپ کی وکالت کرنے والے مِریم زاگ ماس کے مطابق، ’’ہمیں افسوس ہے، کیوں کہ ہم اب بھی سمجھتے ہیں کہ پاکستانی قانون کے مطابق اس واقعے سے متعلق حدود میں بار بار مداخلت ہوتی رہی، اس کا مطلب ہے کہ پاکستانی قانون کے تحت یہ مقدمہ وقتی حدود کے تحت نہیں آتا۔‘‘
جرمن کاروباری ادارے کِک کے وکیل گُنٹر لیہلائٹر نے اس عدالتی فیصلے کے بعد کہا، ’’یہ ایک ٹھوس فیصلہ ہے کیوں کہ یہ آتش زدگی ایک دہشت گردانہ واقعہ تھا اور اس کا فیکٹری کی حالت سے کوئی تعلق نہیں تھا۔‘‘
اس مقدمے میں یہ موقف اختیار کیا گیا تھا کہ سستے ملبوسات فروخت کرنے والے جرمن ادارے کِک نے پاکستانی فیکٹری میں حفاظتی اقدامات کو یقینی نہیں بنایا۔ 

سانحہ بلدیہ ٹاؤن، ایک متاثرہ ماں کی الم ناک داستان


کراچی کی اس فیکٹری میں مبینہ طور پر صرف ایک خارجی راستہ تھا، جب کہ کھڑکیاں بند تھیں، جن سے کسی ہنگامی حالت میں اخراج ممکن نہیں تھا۔ 
مقدمے سے قبل پاکستانی گروپ کے وکلا میں سے ایک ریمو کِلنگر نے کہا تھا، ’’کِک نے حفاظتی انتظامات کے حوالے سے غفلت کا مظاہرہ کیا اور اس لیے اس بڑی تعداد میں ہلاکتوں کی ذمہ داری اس پر بھی عائد ہوتی ہے۔‘‘

شامل شمس، ع ت، الف الف