1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’میرا نام ہے رنکل کماری‘

اعزاز سید اسلام آباد
27 مارچ 2019

جب دھرم کی بنیاد پر ہندوستان ماتا کی تقسیم ہوئی تو میرے پُرکھوں نے بھارت منتقل ہونے کی بجائے اپنے سندھ میں ہی رہنا بہتر سمجھا۔ جاتے بھی کیوں؟ آخر ہمارا کون تھا وہاں؟ ہمارا دیش تو ہماری جنم بھومی ہی تھا۔

https://p.dw.com/p/3FlFw
Blogger Azaz Syed
تصویر: Azaz Syed

سو وہ رہ لیے یہاں اور سمے گزرتا گیا۔ ہم نے دھرم چھوڑا نہیں مگر پاکستان کو اپنی ماتا مان لیا۔ میرے دادا بتاتے تھے کہ پنجاب کے بٹوارے نے مسلمانوں، ہندوؤں اور سکھوں کے گھر اجاڑے، گلے کاٹے لیکن سندھ میں کوئی خاص فرق نہیں پڑا تھا کیونکہ ہماری سرزمین میں تو امن کی گنگا بہتی تھی۔ ہمارے اردگرد ہماری ہی جات (ذات) کے لوگ رہتے تھے۔ مسلمانوں کی تعداد تو زیادہ تھی ہی مگر وہ ہمیں آدھر (عزت) دیتے۔

مجھے پتہ چلا ہے کہ جب پاکستان نے افغانستان میں امریکا کی مدد سے سوویت یونین کے خلاف جنگ لڑی تو ہمارے دیش میں بھی دھرم کے نام پر مارا ماری کرنے والوں کی بھیڑ لگ گئی۔ ان سب کو جنرل ضیاء نے امریکا کی مدد سے دنیا بھر سے پاکستان میں اکٹھا کیا تھا تاکہ روسی فوجوں کا جیون افغانستان میں کٹھن کیا جائے۔ ہوا بھی ایسا ہی، مگر اس بار بھی سندھ محفوظ رہا، کوئی فرق نہ پڑا۔ ہاں! مگر ایک تبدیلی ضرور آئی اور وہ یہ کہ کراچی میں دھرم کے نام پر پڑوسی ملک میں مارا ماری کرنے والوں کی بھرمار ہو گئی۔ کراچی شہر میں بڑے بڑے مدرسے کھل گئے، جہاں جہاد پڑھایا گیا اور ہمارے یہ بھائی جہاد کرنے افغانستان جانے لگے اور پھر وہ جیت گئے۔

میری ماتا کہتی ہیں کہ جہاد تو اسلام کا حصہ ہے۔ اس کا مقصد دیگر دھرم والوں کو نقصان پہنچانا تھوڑا ہی ہے۔ کیونکہ سب کہتے ہیں اسلام تو شانتی (امن) کا دھرم ہے۔ ہمارے دیش میں بھی اس وقت جہاد نے کسی دوسرے کو نقصان نہ پہنچایا لیکن پولیس کے افسران کہتے ہیں کہ اس جہاد نے اندرون سندھ تو نہیں البتہ پنجاب اور کراچی میں فرقہ بندی کو ضرور ہوا دی۔ ہمارے مسلمان بھائی شیعہ سنی کے نام پر ایک دوسرے کا گلہ کاٹنے لگے۔ ہم چھوٹی جات (ذات) کے لوگ تھے، اس لیے ہمیں اس بار بھی کوئی فرق نہیں پڑا مگر سمے آہستہ آہستہ بدل رہا تھا۔ 

ہماری ماتا کہتی ہیں کہ جب ان کی سہیلیاں شہر پڑھنے گئیں تو ان پر کچھ لوگوں نے الٹی سیدھی آوازیں کسیں لیکن ایسا تو سب لڑکیوں کے ساتھ ہوتا آیا ہے۔ اب حالیہ برسوں میں میرے شہر گھوٹکی میں ہمارے ہندو دھرم کی بہت سی کنیاؤں (لڑکیوں) کو زبردستی اغوا کیا جاتا ہے۔ پھر ان کا دھرم تبدیل کر دیا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ہماری جات (ذات) کی لڑکیوں کو دین اسلام پسند آ گیا۔ ابھی صرف ایک ماہ میں ہماری گیارہ ہندو لڑکیوں نے اسلام قبول کرنے کا اعلان کیا ہے میں اکثر پوچھتی ہوں کہ ایسا صرف ہماری جات (ذات) کی لڑکیوں کے ساتھ ہی کیوں ہوتا ہے؟ ہمارے لڑکوں کے ساتھ ایسا کیوں نہیں ہوتا؟

مجھے ہمارے ایک نیتا مکیش میگھوار نے بتایا تھا کہ 1995ء  میں گھوٹکی کا ہمارا ایک پون نامی ہندو بھائی ایک مسلمان لڑکی شبانہ مہر کی محبت میں گرفتار ہو گیا تھا۔ اس نے شبانہ کے عشق میں اپنا دھرم چھوڑا اور اسلام قبول کر لیا مگر ہمارے سماج نے اسے قبول کیا اور نہ اس کی محبت کو۔ بعد میں دونوں کی لاشیں  دریا سندھ سے ملیں۔ انصاف کے لیے مقدمہ بھی درج کروایا گیا مگر پولیس نے معاملہ خودکشی قرار دے کر انصاف کی بلی چڑھا دی۔ پولیس بیچاری بھی ایسا کیوں نہ کرتی کیونکہ ملزمان تھے ہی ’’اتنے طاقتور‘‘ اور ویسے بھی ہم ہندو تھے اور کوئی جج یا پولیس والا ہندو اور مسلمان کے درمیان تنازعے کے موقع پر انصاف کے ساتھ تھوڑا ہی کھڑا ہوگا بلکہ وہ تو مسلمان کے ساتھ کھڑا ہوگا کیونکہ یہ سب دھرم کی ایسی  ہی سیوا پر یقین رکھتے ہیں لیکن اصل اسلام پر عمل نہیں کرتے۔ اسی لیے تو پورے دیش میں ’نیائے ( انصاف) کا بول بالا‘ ہے۔

ہمارے دیش میں ہندو برادری کے ساتھ یہی حسن سلوک تھا کہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں ہمارے ایک نیتا ٹھاکر رام سنگھ سوڈھا نے اپنی پاکستانی شہریت ترک کر دی اور اپنے پورے خاندان کے ساتھ ہندوستان منتقل ہو گئے۔ وہ کوئی عام آدمی نہیں تھے۔ ٹھاکر تھے اور اس کے ساتھ ساتھ اُس وقت سندھ اسمبلی کے مسلم لیگ (ق) کے ایم پی اے بھی۔ مجھے کسی نے بتایا ہے کہ ٹھاکر کی پاکستانی شہریت چھوڑنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وہ اپنے خاندان کی کنیاؤں (لڑکیوں) کا دھرم سُرکشِت (محفوظ) کرنا چاہتے تھے۔ سنا ہے اس دیوالی پر وہ پاکستان میں ہندوؤں کا حال دیکھنے بھی آئے تھے۔ خواہش کے باوجود میں ان سے نہ مل سکی۔

اب اتنی لمبی کتھا سنانے کے بعد میں آتی ہوں اپنے مسئلے کی طرف۔ میں ایک پڑھی لکھی ہندو کنیا ہوں۔ اپنے دھرم کو سنبھالے عزت کے ساتھ اپنی ماتا پاکستان میں رہتی ہوں۔ مگر میں دیکھتی ہوں کہ ہمارے دیش میں ہم ہندو کنیاؤں کا حال برا ہے۔ لڑکیوں پر تو پہلے ہی بری نظریں اٹھتی ہیں مگر کسی کو پتہ چل جائے کہ ہم ہندو ہیں تو اکثر ہم سے ایسا رویہ رکھا جاتا ہے کہ جیسے ان مردوں کو ہمارے جسم نوچ لینے کا لائسنس مل گیا ہو! کچھ اچھے لوگ بھی ملتے ہیں، جو پیار سے بات کرتے ہیں، شادی کی پیش کشیں تو بہت ملتی ہیں مگر ساتھ ہی ہمیں اپنا دھرم چھوڑنے کی دعوت بھی ان پیشکشوں کا لازمی حصہ ہوتی ہے۔ دراصل ایسے لوگ ہمارے تن کو دھرم کے نام پر استعمال کر کے سورگ (جنت) کمانے کے چکر میں ہوتے ہیں۔ مزے کے مزے اور  سورگ کا سورگ۔

’ظلم یہ ہے‘ کہ ہندو چاہتے ہیں کہ پاکستان میں دھرم کی تبدیلی کے لیے باقاعدہ قانون سازی کی جائے، ایک طریقہء کار وضع کیا جائے اور اس کا اطلاق صرف ہندوؤں پر ہی نہیں اس دھرتی ماتا میں بسنے والے تمام دھرموں کے ماننے والوں پر برابر کیا جائے۔ اکثر سوچتی ہوں کہ ایسے لوگوں کو اپنا دھرم اتنا ہی عزیز ہے تو اس دیش میں شانتی لائیں، انصاف لائیں، دھوکے بازی ختم کریں کہ ہم سب ہی مسلمان ہو جائیں۔ کرائسٹ چرچ میں مسلمانوں کی عبادت گاہ پر دہشت گردی ہوئی تو نیوزی لینڈ کی وزیراعظم اسکارف لیے سامنے آئیں، وہاں پارلیمنٹ میں قرآن کی تلاوت بھی کی گئی لیکن جب ہمارے ہاں کبھی ہندو، سکھ، عیسائی یا احمدی برادری کو نشانہ بنایا جاتا ہے تو اس وقت ہمارے وزیراعظم ان کے گھروں میں کیوں نہیں جاتے؟  ہماری پارلیمنٹ میں گیتا، گُرو گرنتھ صاحب اور بائبل کیوں نہیں پڑھی جاتی؟  ہمارے مسلمان بھائی ہماری عبادت گاہوں کے باہر ہماری حفاظت کیوں نہیں کرنے آتے ؟ ہماری لڑکیاں اغوا ہو جائیں اور ان کی اچانک شادیوں کے بعد انہیں مسلمان بنا لیا جائے، یہ ہی  قابل قبول کیوں ہے؟ مگر کسی مسلمان کنیا کو ہندو بنانا قابل قبول کیوں نہیں؟

مجھے بتائیے کہ اگر ہمارا کوئی مرد مسلمان ہو تو کتنے مسلمان گھرانے اس سے شادی کے لیے اپنی بیٹی کا ہاتھ دیں گے؟ شاید کوئی بھی نہیں! کیوں؟ مجھے بتائیے کہ ہمارے ہندو نوجوان خوبصورت نہیں یا مسلمان لڑکیاں مذہب دیکھ کر پیار کرتی ہیں؟ کتنے لوگ ہیں جو ہمارے ہندو لڑکوں سے مسلمان چھوریوں کی محبت کو قبول کر لیں گے؟ جواب  ہے کوئی ایک بھی نہیں بلکہ انہیں تو گولی مار دی جائے گی۔ کیونکہ انہیں اپنا دھرم عزیز ہے نہ ماتا انہیں تو ہمارے جسموں سے اپنی ہوس کی آگ ٹھنڈی کرنی ہے۔ ہم کمزور ہیں انہیں کچھ کہہ نہیں سکتے اور ہمارے جسم بدستور ان کے کھلواڑ کا میدان ہیں۔ مسلمان بھائی ہمارے بھگوان کو تو نہیں مانتے لیکن ہمیں انسان تو سمجھیں اور اپنے خدا کی ہی مان لیں!

میں رنکل کماری اپنے دھرم کو مانتے ہوئے اپنے خاندان کے ہمراہ عزت کے ساتھ اس دھرتی ماں پر زندہ رہنا چاہتی ہوں، میں اپنی جات (ذات) کی آواز ہوں۔ جب کبھی کسی ہندو کنیا کا دھرم بدلتا ہے تو لوگ مجھے یاد کرتے ہیں کیونکہ میرا نام  دھرم کی تبدیلی کا ایک حوالہ بن گیا ہے۔ آج کل میری ہی جات( ذات) کی دو لڑکیوں کو سندھ سے اغوا کر کے پنجاب میں لے جایا گیا ہے۔ ان کے پتا (والد) جی کا دکھ سنتا تو کون سنتا ؟ سب نے دھتکارا تو اس احتجاج کی ویڈیو سوشل میڈیا پر توجہ کا مرکز بنی اور پھر ان دونوں کنیاؤں (لڑکیوں) کو ٹی وی چینلز کی سکرین پر لا کر ان کی اسلام سے محبت کا اعلان کیا گیا۔ اسلام آباد کی عدالت میں بھی وکیلوں کے جھرمٹ میں وہ اپنا دھرم چھوڑنے کا اعلان کرتی رہیں۔  اپنی جات (ذات) کی ان کنیاؤں کو دیکھ کر میری آنکھوں میں آنسو آ گئے اور اپنے کچھ پرانے درد جاگ اٹھے!

نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔