1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نسوانی بیماریوں کے تکلیف دہ علاج کی شکایت بھی تحریک بن گئی

2 جنوری 2019

ہیش ٹیگ ’می ٹو‘ کی لہر کے باعث بلقان کے خطے کے ممالک میں مختلف طرح کی سماجی بیداری کی تحریک شروع ہو گئی ہے۔ وہاں بہت سی خواتین نسوانی امراض کی تشخیص کے انتہائی تکلیف دہ عمل کو جنسی استحصال قرار دینے لگی ہیں۔

https://p.dw.com/p/3AuqM
Stock Foto Geburt
تصویر: Colourbox/Monkey Business Images

بلقان کے خطے کی خواتین نے اب زنانہ امراض کے اس طبی تشخیصی عمل کو بے نقاب کرنا شروع کر دیا ہے، جس کی وجہ سے وہ برسوں سے طرح طرح کے عوامل کے نام پر تکلیف دہ جسمانی برتاؤ کی شکار تھیں۔ علاج کے یہ طریقے خواتین کی بچہ دانی اور رحم کی بیماریوں کے لیے استعمال کیے جاتے رہے ہیں۔ اب خواتین نے علاج کے  اِن طریقوں کو جنسی استحصال کا نام دیتے ہوئے اپنی آواز بلند کرنا شروع کر دی ہے۔ بعض خواتین نے ہسپتالوں میں روا رکھے جانے والے سلوک کی عبرت ناک کہانیاں بھی بیان کی ہیں۔

اس ’منظم‘ جنسی استحصال کے حوالے سے سب سے پہلی آواز کروشیا کی خاتون سیاستدان ایوانا نینچیوچ کی جانب سے ابھری۔ اُن کو حمل گرنے کے بعد ہسپتال لے جایا گیا تو انہیں ہسپتال کے عملے کی جانب سے جو علاج فراہم کیا گیا، اُسے انہوں نے شرمناک اور ظالمانہ قرار دیا۔ خاتون سیاستدان نے واضح کیا کہ ہسپتال میں ان کے ہاتھ پاؤں باندھ کر بغیر بے ہوش کرنے والی دوا علاج فراہم کیا گیا جو انتہائی تکلیف دہ تھا۔

Schwangere Frau mit Kaffee
ایسی خواتین کو تکلیف دہ علاج کا سامنا رہتا ہے، جن حمل گر جاتے ہیںتصویر: picture-alliance/Prisma/S. Papp

ایوانا نینچیوچ کروشیائی پارلیمنٹ کی رکن پارلیمنٹ ہیں۔ انہوں نے ملکی خاتون وزیر صحت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس طریقہٴ علاج کو ختم کرنے کے لیے عملی کوششیں کریں۔ دوسری جانب رکن پارلیمان ایوانا نینچیوچ کو علاج فراہم کرنے والے ہسپتال نے اُن کے بیان کو لغو اور من گھڑت قرار دیا ہے۔

اس مناسبت سے ایک پیش رفت یہ بھی ہے کہ بلقان کے خطے کے ملک کروشیا کی کئی خواتین نے ایوانا نینچیوچ کے بیان کو درست قرار دیتے ہوئے اپنی صدائے احتجاج بلند کی ہے۔  یہ امر اہم ہے کہ بلقان کے علاقے میں نِسوانی بیماریوں کا ذکر کرنا کوئی قابل تعریف موضوعِ گفتگو خیال نہیں قرار دیا جاتا۔

ایسی ہی ایک خاتون نے بتایا کہ ایک لیڈی ڈاکٹر نے حمل گرنے کے بعد علاج کرتے ہوئے اُس کی چیخنے کو بیکار قرار دیا۔ اس دوران ڈاکٹر نے اُس کے لیے تضحیک آمیز جملے بھی استعمال کیے۔ ایک اور خاتون نے بھی بتایا کہ اُس کے بازو اور ٹانگیں عملے کے افراد نے پکڑ کر اسقاط حمل کے بعد اُس کے رحمِ مادر کی صفائی کی تھی۔

Symbolbild Model Schwanger
کروشیا کی تقریباً ایک تہائی خواتین نسوانی عوارض کے حوالے سے ہسپتالوں کا رخ کر چکی ہیںتصویر: imago/CHROMORANGE

کروشیا کی تقریباً چار سو خواتین نے اپنے تحریری بیانات ایک ایڈووکیسی گروپ روڈا ( RODA) کو فراہم کیے ہیں۔ کروشیا کی تقریباً ایک تہائی خواتین نسوانی عوارض کے حوالے سے ہسپتالوں کا رخ کر چکی ہیں۔ اس تنظیم کی ایک سینیئر ورکر ڈانیلا ڈرانڈچ کا کہنا ہے کہ نسوانی امراض کے علاج کے دوران خواتین کو علاج کے حوالے سے کوئی فیصلہ کرنے کا موقع نہیں دیا جاتا۔

بلقان کے خطے کی سرگرم خواتین کے مطابق اس سارے علاقے میں خواتین کو ایسے ہی تکلف دہ علاج کا سامنا رہتا ہے۔ کروشیا کے علاوہ سربیا اور دوسرے ممالک کی بھی کم و بیش یہی صورت حال ہے۔

باویریا کے کیتھولک مسیحیوں میں اسقاط حمل متنازعہ