1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

آتش فشاں آگونگ کی سیاہ راکھ سے نظام زندگی متاثر

عابد حسین
28 نومبر 2017

انڈونیشی جزیرہ بالی کے آتش فشاں سے مسلسل چوتھے روز بھی سیاہ راکھ ایئر پورٹ سمیت قریبی علاقوں پر گر رہی ہے۔ اس آتنش فشاں میں ہونے والے دھماکوں کی آوازیں بارہ کلومیٹر تک سنی جا رہی ہیں۔

https://p.dw.com/p/2oMxf
Indonesien Vulkan Agung
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Lisnawati

انڈونیشی حکام نے اس آتش فشاں سے نکلنے والی راکھ کے بعد سے قریبی دیہات کے مکینوں کو فوری طور پر محفوظ مقامات پر منتقل ہونے کی ہدایت کی ہے۔ اسی طرح بالی کا ہوائی اڈہ بھی اِس راکھ کی زد میں ہے۔ گہری راکھ کے باعث ہزاروں سیاحوں کو پریشان صورت حال کا سامنا ہے۔ ان چار دنوں میں سینکڑوں پروازیں منسوخ کی جا چکی ہیں۔ صرف منگل کے دن ہی 443 پروازیں متاثر ہوں گی۔ ایئر پورٹ حکام نے ہوائی اڈے کو مزید چوبیس گھنٹوں کے لیے بند رکھنے کا اعلان کیا ہے۔

بالی کے کوہ آگونگ میں آتش فشانی کا خطرہ بڑھ گیا

بالی کا آتش فشاں پھٹنے والا ہے، ماہرین

’چاند پر چہرہ‘ لاوے سے بنا

آتش فشاؤں کا پھٹنا بڑے دریاؤں کے لیے نقصان دہ

حکام کے مطابق آتش فشاں کی راکھ ہوائی جہازوں کے لیے انتہائی خطرناک ہو سکتی ہے۔ ہوائی اڈے پر کئی غیر ملکی سیاح اس صورت حال سے پریشان ہیں لیکن حکام کو ذمہ دار نہیں ٹھہرا سکتے کیونکہ یہ ایک قدرتی عمل ہے۔

آتش فشاں کی چوٹی سے کئی مرتبہ اندر ابلتے لاوے کی زردی مائل سرخ روشنی دیکھی گئی ہے۔ گزشتہ ویک اینڈ سے اِس آتش فشاں سے راکھ باہر آنا شروع ہوئی تھی اور اب اس میں شدت دیکھی جا رہی ہے۔ اس راکھ سے تیس ہزار فٹ بلند فضائی ماحول بھی متاثر ہو چکا ہے۔

Indonesien Ngurah Rai International Airport auf Bali
آج منگل کے دن 443 پروازیں منسوخ کی گئی ہیںتصویر: picture-alliance/AP Photo/K. Nataan

اس راکھ نے قریبی دیہات کی معمولی کی زندگی کو بھی شدید انداز میں متاثر کر دیا ہے۔ حکام نے انتہائی قریبی علاقے کو خطرناک ترین علاقہ قرار دے دیا ہے اور اس علاقے سے کم از کم ایک لاکھ افراد کی فوری منتقلی کا اندازہ لگایا گیا ہے۔

محفوظ مقامات پر منتقل ہونے والے دیہاتی اپنا اپنا مال مویشی بھی ساتھ لے کر جا رہے ہیں کیونکہ گھاس اور درختوں کے پتوں پر راکھ گرتی جا رہی ہے اور یہ مال مویشیوں کے لیے کھانا ناممکن ہو کر رہ گیا ہے۔ حکام کے مطابق دیہاتیوں کو اس کا خدشہ بھی لاحق ہے کہ جو مال مویشی پیچھے رہ گئے ہیں وہ بھوک یا پھر راکھ کی وجہ سے ہلاک ہو سکتے ہیں۔ کوہ آگونگ سن 1963 میں پھٹا تھا اور اُس کی وجہ سے ایک ہزار سے زائد انسان ہلاک ہوئے تھے۔

بالی کا آتش فشاں پھر ابل پڑا