1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

آرمینیا ’نسل کشی‘: جرمن ترک تعلقات خطرے میں

افسر اعوان31 مئی 2016

وفاقی جرمن پارلیمان میں جمعرات دو جون کو ایک قرارداد پر ووٹنگ ہو رہی ہے جس کے تحت سلطنت عثمانیہ کی طرف سے آرمینیائی باشندوں کی ہلاکت کو ’نسل کُشی‘ قرار دیا جا سکتا ہے۔ ترکی اس پر سخت انتباہ جاری کر چکا ہے۔

https://p.dw.com/p/1IxnB
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Kappeler

جرمن پارلیمان میں پیش کی جانے والی یہ قرارداد حکومت میں شامل دائیں اور بائیں بازو سے تعلق رکھنے والی اتحادی جماعتوں اور اپوزیشن گرین پارٹی کی طرف سے تیار کی گئی ہے۔ اس قرارداد کو ’’1915ء اور 1916ء میں آرمینیائی باشندوں اور دیگر مسیحی اقلیتوں کی نسل کشی کی یاد‘‘ کا نام دیا گیا ہے جبکہ اس قرارداد کے متن میں بھی لفظ ’نسل کشی‘ کا مسلسل استعمال کیا گیا ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق جرمن صدر یوآخم گاؤک نے ایک برس قبل آرمینیا میں ہونے والی ہلاکتوں کے لیے ’نسل کشی‘ کی اصطلاح استعمال کی تھی اور اس طرح وہ یہ اصطلاح استعمال کرنے والے جرمنی کے اعلیٰ ترین رہنما بن گئے تھے۔

یہ ووٹنگ ایک ایسے وقت پر ہو رہی ہے، جب ایک طرف تو جرمنی اور یورپی یونین کو انقرہ حکومت کی مدد درکار ہے کہ وہ مہاجرین کے یورپ کی جانب بہاؤ کو روکے جبکہ دوسری جانب انسانی حقوق سمیت متعدد معاملات کے سبب فریقین میں تناؤ بھی موجود ہے۔

ترکی کی طرف سے اس رائے شماری کے خلاف جرمن حکومت کو متنبہ کیا گیا ہے۔ ترکی کے نائب وزیراعظم اور حکومتی ترجمان نعمان کُرتُلمُش کی طرف سے کہا گیا، ’’جرمنی کو ترکی کے ساتھ اپنے تعلقات کے حوالے سے محتاط رہنا چاہیے۔‘‘ اُن کا مزید کہنا تھا، ’’میں نہیں سمجھتا کہ جرمن پارلیمان ان دو یا تین سیاستدانوں کی وجہ سے ترکی کے ساتھ اپنے تعلقات کو نقصان پہنچائے گی، جنہوں نے یہ قرار داد وفاقی پارلیمان میں پیش کی ہے۔‘‘

جرمن صدر یوآخم گاؤک نے ایک برس قبل آرمینیا میں ہونے والی ہلاکتوں کے لیے ’نسل کشی‘ کی اصطلاح استعمال کی تھی
جرمن صدر یوآخم گاؤک نے ایک برس قبل آرمینیا میں ہونے والی ہلاکتوں کے لیے ’نسل کشی‘ کی اصطلاح استعمال کی تھیتصویر: Getty Images/AFP/T. Schwarz

پہلی عالمی جنگ کے دوران ہونے والے ہلاکتوں کے معاملے پر آرمینیا اور ترکی کے درمیان طویل عرصے سے تعلقات کشیدہ ہیں۔ آرمینیا کا کہنا ہے کہ 1915ء سے 1917ء کے درمیان اس وقت کی سلطنت عثمانیہ کے حکمرانوں کی طرف سے 1.5 ملین آرمینیائی قتل کر دیے گئے تھے۔ آرمینیا چاہتا ہے کہ اس قتل عام کو عالمی سطح پر ’نسل کشی‘ کے طور پر تسلیم کیا جائے۔

آرمینیا کی وزارت خارجہ کے ترجمان تِگران بالایان کا خبر رساں ادارے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’یہ دراصل تاریخی انصاف فراہم کرنے کی بات ہے۔ یہ نسل کشی کا شکار ہونے والوں کی یاد کے حوالے سے پوری عالمی برادری کی ذمہ داری ہے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ اسے عالمی سطح پر تسلیم کرنا ’’مستقبل میں کسی نسل کشی سے بچنے کے لیے بھی اہم ہے۔‘‘

ترکی کی جانب سے اس اصطلاح کو رد کیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ آرمینیا نے عثمانی حکمرانوں کے خلاف بغاوت کی تھی اور ترکی پر حملہ کرنے والی روسی فوجوں کا ساتھ دیا تھا اور یہ کہ اس خانہ جنگی میں تین سے لے کر پانچ لاکھ تک آرمینیائی باشندے اور اتنی ہی تعداد میں ترک باشندے بھی ہلاک ہوئے۔

اب تک 20 سے زائد ممالک آرمینیا میں ہونے والی اِن ہلاکتوں کو نسل کشی تسلیم کر چکے ہیں، جن میں فرانس اور روس بھی شامل ہیں تاہم جرمنی نے ابھی تک ان ہلاکتوں کو نسل کشی تسلیم نہیں کیا۔