1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کووڈ انیس کی نئی قسم کا پتا لگانے کی عالمی دوڑ

1 دسمبر 2021

دنیا بھر کے ممالک کی حکومتیں کووڈ انیس انفیکشن کا ڈیٹا بیس اکٹھا کرنے ، مسافروں کی اسکریننگ اور کورونا کے نئے ویرینٹ کے وائرل جینوم کی ڈی کوڈننگ کی تیز رفتار دوڑ میں شامل نظر آ رہی ہیں۔

https://p.dw.com/p/43hJ1
Deutschland | Plan:et C Festival der Fusion-Macher
تصویر: Bernd Wüstneck/dpa-Zentralbild/picture alliance

اس وقت دنیا کے قریب ہر خطے میں حکومتیں جس تیز رفتاری سے ان عوامل پر عمل پیرا ہیں اُس سے اُس دباؤ کی نشاندہی ہو رہی ہے جو اب حکومتی سطح پر نمایاں نظر آ رہا ہے۔ اب حکام کو ایک اہم امر کا فیصلہ اور اپنی سمت کا تعین کرنا ہے، وہ یہ کہ وہ غیر مقبول اور معاشی طور پر نقصان دہ اقدامات سے گریز نہ کریں کیونکہ یہ وقت کی ضرورت ہے ، یا کورونا کے نئے ویرینٹ اومیکرون کے پھیلاؤ کو نظر انداز کریں۔

سائنسی ڈیٹا سے پتا چلا ہے کہ اومیکرون کی سرکاری طور پر تشخیص سے پہلے سے ہی یہ وائرس گردش کر رہا تھا۔ گزشتہ ہفتے جنوبی افریقہ میں ویرینٹ اومیکرون کی شناخت کی خبرعام ہوئی تھی اور اس کے بعد سے دنیا کے ایک درجن سے زائد ممالک میں اس کی موجودگی کا پتا چل چُکا ہے۔ اس امر کی مستند معلومات حاصل کرنے میں ابھی کئی ہفتے لگیں گے کہ آیا یہ ویرینٹ زیادہ متعدی، مہلک اور ویکسین کے اثرات سے بچ نکلنے والا وائرس ہے یا نہیں؟

کورونا وائرس کی وبا سے عالمی سیاحت کو دو ٹریلیئن ڈالر کا نقصان ہو سکتا ہے

Coronavirus - Club-Pilotprojekt in Berlin
برلن مبں PCR ٹیسٹ کیکا کٹ کلب کے باہرتصویر: Sean Gallup/Getty Images

سفری پابندیوں میں تیزی

برطانیہ اور دنیا کی دیگر بڑی معیشتوں نے جنوبی افریقہ کو جانے اور وہاں سے آنے والی تمام تر پروازوں پر فوری طور پر پابندی لگا دی کیونکہ جنوبی افریقہ میں کورونا وائرس کے مبینہ طور پر زیادہ خطرناک ویرینٹ اومیکرون کی موجودگی کا سب سے پہلے پتا چلا تھا۔ دنیا کی بڑی معیشتوں کے سفری پابنیدیاں لگانے کے نتیجے میں عالمی مالیاتی منڈیوں میں ہلچل مچ گئی اور اس کے دور رس نتائج مرتب ہوں گے۔

اس بار اس وبا کے خلاف ہر خطے میں کی جانے والی کارروائیوں کی رفتار اُس کے بالکل برعکس ہے جو ماضی میں سامنے آنے والے ویرینٹس مثال کے طور پر ستمبر 2020 ء میں برطانیہ میں دستاویزی ثبوت کے ساتھ سامنے آنے والے ویرینٹ 'الفا‘ کے بعد تھی۔ تب لندن حکومت نے ملک گیر سطح پر لاک ڈاؤن لگانے سے پہلے الفا ویرینٹ کے ڈیٹا اکٹھا کرنے اور اس کے مہلک ہونے کا اندازہ  لگانے میں مہینوں لگا دیے تھے۔ بعدازاں دسمبر میں لاک ڈاؤن کا نفاذ ہوا تھا۔

کورونا کی نئی قسم 'اومی کرون‘، دیگر اقسام سے زیادہ مہلک

Deutschland Covid gratis Bürgertest im Corona Testzentrum Grugahalle, Essen
بہت سے ملکوں میں کووڈ ٹیسٹ مفت کروانے کے لیے کٹ عوام میں تقسیم کی گئی ہےتصویر: Rupert Oberhäuser/picture alliance

اُدھر ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن ڈبلیو ایچ او کو بھی مہینوں لگے اُسے تشویشناک وائرس کی ایک قسم قرار دینے اور اس کے خطرات کی بلند ترین درجہ بندی میں۔

پی سی آر کٹس کے حصول کی دوڑ

گزشتہ جمعے کو نئے کورونا ویرینٹ اومیکرون کی خبر عام ہوتے ہی اسرائیل نے اعلان کیا کہ وہ مزید 10 ملین پی سی آر کٹس خریدے گا جس کی مدد سے نئے ویرینٹ کی تشخیص جلد سے جلد ہو سکے گی اور اس کے پھیلاؤ پر پایا جا سکے گا۔ ساتھ ہی اگلے روز یعنی ہفتے کے دن تل ابیب نے تمام ممالک کے غیر ملکیوں کے لیے اپنی سرحدی بند کرنے کا اعلان بھی کیا۔بھارتی شہریوں کو فی الحال جرمنی آنے کی اجازت نہیں، جرمن سفیر

 

دیگر ممالک کے اقدامات

اسکاٹ لینڈ اور سنگا پور اپنے ہاں اب تک کے ہزاروں کی تعداد میں تصدیق شدہ کووڈ انیس کیسز کی مزید جانچ پڑتال کر رہے ہیں تاکہ یہ پتا چلایا جا سکے کہ کہیں اب تک کی تحقیق اور ٹیسٹ میں نئے ویرینٹ کی تشخیص میں کہیں کوئی کوتاہی تو نہیں رہ گئی۔

Großbritannien beginnt Tür-zu-Tür-Tests | Jagd nach COVID-Variante
برطانیہ نے ’ ڈور ٹو ڈور‘ ٹیسٹ کی سہولت فراہم کر رکھی ہےتصویر: Andrew Couldridge/REUTERS

اُدھر امریکا کووڈ انیس کی نگرانی کے طریقہ کار کو مزید جدید اور اس کی فعالیت میں اضافے کی کوشش کر رہا ہے تاکہ اومیکرون ویرینٹ کے دیسی یا گھریلو کیسز اور غیر ملکی کیسز میں فرق معلوم کیا جا سکے۔’بھارتی کورونا برطانوی اور برازیلوی وائرس سے زیادہ خطرناک‘

 

 یورپی یونین کی ہیلتھ کمشنر نے تمام ممبر ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ اپنے ہاں اس نئے کورونا ویرینٹ کی تشخیص  کو تیز رفتار بنائیں۔ ایک ایسے وقت میں یہ اقدام ناگزیر ہیں کیونکہ بہت سے رکن ممالک کورونا وبا کے سبب دو سال پیچھے ہیں۔

 یورپی یونین کی ہیلتھ کمشنر یونانی سیاستدان اور ماور امراض نفسیات اسٹیلا کریا کیڈس نے تمام 27 ممبر ممالک کے وزرائے صحت کے نام ایک خط میں متنبہ کیا کہ تمام ممالک اس وقت شدید دباؤ کا شکار ہیں۔ ان کا کہنا تھا، '' ہم پہلے ہی سے موسم سرما کی شدت کے سبب ڈیلٹا ویرینٹ کے پھیلاؤ کے چیلنج کا سامنا کر رہے ہیں۔ ہم پر اب اومیکرون ویرینٹ کا اضافی بوجھ پڑ رہا ہے۔‘‘

یاد رہے کہ یورپی بلاک کے 10 ممالک میں اب تک کورونا ویرینٹ کے 42 کیسز کی تصدیق ہو چُکی ہے۔

 

ک م / ع ب/ روئٹرز