1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

آسماں تیری لحد پہ شبنم افشانی کرے

عاطف توقیر26 اگست 2008

نامور اردو شاعر احمد فراز اب ہم میں نہیں رہے۔ موجودہ عہد میں اردو شاعری کا سب سے تابندہ ستارہ، ہمیشہ کے لئے بجھ گیا۔ احمد فراز کا شمار اس عہد میں دنیائے اردو کے سب سے مستند شاعر کے طور پر کیا جاتا تھا۔

https://p.dw.com/p/F5DH
تصویر: AP

احمد فراز 14جنوری انیس سو اکتیس کو نوشہرہ میں پیدا ہوئے۔ان کا نام سید احمد شاہ تھا مگر انہوں نے شاعری میں فراز تخلص کیا ۔ آغاز ہی میں احمد فراز نے جدید لب و لہجے میں ایسی خوبصورت اور نئی جہت میں شاعری کی کہ بہت جلد خاص و عام میں مقبول ہوگئے۔احمد فراز کو اردو بولنے اور سمجھنے والے تمام لوگ جانتے اور مانتے تھے۔ وہ ’’تنہا تنہا‘‘، ’’دردِ آشوب‘‘، ’’سخن بہانہ کروں‘‘، ’’جانا ں جاناں‘‘، ’’بے آواز گلی کوچوں میں‘‘، ’’آئینوں کے شہر میں نابینا‘‘، خوابِ گل پریشاں ہے‘‘، اور’’ اے عشق جنوں پیشہ ‘‘ جیسے خوبصورت مجموعوں کے ذریعے شاعری سے محبت کرنے والے لاکھوں دلوں تک پہنچے۔احمد فراز نے باقاعدہ طور پر کبھی گیت نہیں لکھے مگر ان کے مجموعوں میں سے ملک کے صفَ اول کے گلوکاروں نے کلام گایا اور وہ زباںِ زدِ عام ہوا۔

مہدی حسن کی آواز میں ’’رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لئے آ‘‘ اور ’’اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں‘‘، میڈم نورجہاں کی لے میں ٫٫ سلسلے توڑ گیا وہ سبھی جاتے جاتے‘‘ احمد فراز کی شہرت میں لازوال اضافے کا باعث بنے۔ ان کے سینکڑوں شعر لوگوں کو زبانی یاد ہیں۔ ان کے کئی اشعار اردو بولنے والے ضرب المثل کے بطور استعمال کرتے ہیں

تم تکلف کو بھی اخلاص سمجھتے ہو فراز

دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا

ان بارشوں سے دوستی اچھی نہیں فراز

کچا تِرا مکان ہے کچھ تو خیال کر

میں تِرا نام نہ لوں پھر بھی لوگ پہچانیں

کہ آپ اپنا تعارف ہوا بہار کی ہے

وہ قحط ِحرفِ حق ہے کہ اس عہد میں فراز

خود سا گناہگار پیمبر لگے مجھے

اب کے تجدید وفا کا نہیں امکاں جاناں

یا د کیا تجھ کو دلائیں تَرا پیماں جاناں

احمد فراز کی شاعری کا مرکز گو کہ نقطہ محبت اور غمَ جاناں رہا مگر عظیم شاعر فیض احمد فیض کی قربت نے انہیں ظلم کے خلاف آواز بلند کرنا بھی سکھا دیا تھا۔ ان کی کئی نظمیں معاشرتی نا ہمواریوں کے خلاف وا شگاف نعرہء بغاوت ہیں۔ جنرل ضیا کے دور میں خود ساختہ جلا وطنی بھی اختیا رکی اور اس دوران بے شمار انقلابی نظمیں کہیں جن میں ظلم کے خلاف بھرپور آواز بلند کی۔ انہیں ملکی سیاست اور طاقت ور کے ہاتھوں پستے ہوئے مظلوم عوام ہمشہ دکھ میں مبتلا کرتے رہے۔ جلا وطنی کی دور میں ان کی لکھی گئی ایک نظم ’’ محاصرہ‘‘ ہر دل کی آواز بنی۔

یہ کون لوگ ہیں دو چار خواہشوں کے لئے

تمام عمر کا پندار بیچ دیتے ہیں

ذرا بھی نرخ ہو بالا تو تاجرانِ حرم

گلیم و جبہ و دستار بیچ دیتے ہیں

انہیں بے شمار قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا گیا۔ احمد فراز کی خدمات کے صلے میں حکومتِ پاکستان نے 2004 میں انہیں ہلال امتیاز سے نوازا جو انہوں نے 2006 میں حکومتی پالیسیوں سے نالاں ہو کر واپس کر دیا۔

احمد فراز طویل عرصے سے گردوں کے مرض میں مبتلا تھےاور امریکہ کے ایک ہسپتال میں داخل تھے۔ کچھ روز قبل وہ پاکستان واپس لوٹے ۔ جہاں پیر 25 اگست 2008 کومحبت کی غزلوں اور ظلم کے خلاف بلند آواز نظموں کے خالق ہم سے جدا ہو گئے۔

سلسلے توڑ گیا وہ سبھی جاتے جاتے۔۔۔۔۔