1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

آنجہانی کمیونسٹ رہنما جیوتی باسو کو آخری الوداع

19 جنوری 2010

مغربی بنگال کے عوام نے منگل کے روز پچانوے سالہ کمیونسٹ رہنما آنجہانی جیوتی باسو کو آخری الوداع کہہ دیا جبکہ اُن کی میت تحقیق کے لئے ایک ہسپتال کو عطیہ کر دی گئی۔

https://p.dw.com/p/Laod
جیوتی باسو الوداعتصویر: Prabhakar Mani Tewari

جیوتی باسو کی آخری رسومات کے موقع پر کانگریس پارٹی کی صدر سونیا گاندھی، وفاقی وزیر خزانہ پرنب مکھرجی اور بنگلہ دیشی وزیر اعظم شیخ حسینہ سمیت متعدد اہم سیاسی و سماجی شخصیات بھی موجود تھیں۔

Begräbnis von Jyoti Basu ehemaliger Ministerpräsident von West Bengal in Kalkutta
ہزاروں افراد نے آنجہانی باسو کو خراج عقیدت پیش کیاتصویر: Prabhakar Mani Tewari

بھارتی قومی پرچم میں لپٹی مرحوم جیوتی باسو کی نعش مغربی بنگال کی ریاستی اسمبلی میں رکھی گئی تھی۔ وہاں باسو کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے اہم قومی اور بین الاقوامی شخصیات موجود تھیں۔

کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا مارکسسٹ کے اس رہنما کی آخری رسومات کی تقریب میں شرکت کے لئے کانگریس پارٹی کی صدر سونیا گاندھی، وزیر خزانہ پرنب مکھرجی کے ہمراہ کولکتہ پہنچیں۔ بنگلہ دیشی وزیر اعظم شیخ حسینہ بھی اس کمیونسٹ سیاستدان کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے خصوصی طور پر کولکتہ گئیں جبکہ مغربی بنگال کے وزیر اعلیٰ بدھا دیب بھٹا چاریہ اور کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا مارکسسٹ کے پولٹ بیورو کے رکن سیتا رام یچوری بھی اس تعزیتی تقریب میں موجود تھے۔ ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈر لال کرشن اڈوانی اور پارٹی کے نئے صدر نیتن گاڈکاری نے بھی جیوتی باسو کو بھرپور خراج عقیدت پیش کیا۔

Sheikh Hasina nimmt Abschied von Jyoti Basu
بنگلہ دیشی وزیر اعظم شیخ حسینہ بھی اس کمیونسٹ سیاستدان کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئےکولکتہ میں موجود تھیںتصویر: Prabhakar Mani Tewari

جیوتی باسو کے انتقال پر افسوس کرنے والوں کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ پرنم آنکھوں سے جیوتی بابو کو آخری بار دیکھنے والے ان ہزاروں افراد میں سے بہت سے ہاتھوں میں گلدستے لئے ہوئے تھے۔ جیوتی باسو کی میت مقامی وقت کے مطابق صبح دس بج کر دس منٹ پر بھارتی ریاست مغربی بنگال کی اسمبلی میں لائی گئی۔ بیک گراوٴنڈ میں ان کی ایک بہت بڑی تصویر رکھی گئی تھی۔ اسمبلی پہنچنے سے قبل ان کے جسد خاکی کو کچھ دیر تک ان کی جماعت CPI(M) کے ہیڈ کوارٹرز کے باہر بھی رکھا گیا۔ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا مارکسسٹ کے صدر دفاتر کولکتہ کی علیم الدین سٹریٹ پر واقع ہیں۔ جب صبح آٹھ بجے ان کی میت کو وہاں لایا گیا، تو پارٹی کے ہزاروں حامیوں نے انہیں آخری مرتبہ الوداع کہا۔ وہیں پر ریاستی وزیر اعلیٰ بدھا دیب بھٹا چاریہ نے جیوتی باسو کے جسد خاکی پر پھولوں کی چادر بچھائی۔

اس موقع پر سیکیورٹی کے سخت انتظامات تھے۔ بعض سیکیورٹی ماہرین کے مطابق ٹھیک اسی طرح کے انتظامات سن 1997ء میں مدر ٹیریسا کی وفات کے موقع پر کئے گئے تھے۔

معروف کمیونسٹ سیاستدان باسو کو یہ منفرد اعزاز حاصل ہے کہ وہ مسلسل تئیس برسوں تک بھارتی ریاست مغربی بنگال کے وزیر اعلیٰ رہے۔

Kommunistischer Politiker Jyoti Basu Indien
باسو اپنے دفتر میں، فائل فوٹوتصویر: picture-alliance/ dpa

مارکسسٹ نظریات کےحامی یہ لیڈر چھ دہائیوں سے بھی زائد عرصے تک مغربی بنگال میں سرگرم عمل رہے۔ انہوں نے مغربی بنگال میں سن 1977ء کے انتخابات میں اپنی جماعت کی شاندار کامیابی میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ اس کامیابی کے ساتھ ہی وہ مغربی بنگال کے وزیر اعلیٰ بنے تھے۔ آج تک دنیا کا کوئی بھی دوسرا باقاعدہ طور پر منتخب کمیونسٹ لیڈر اتنے طویل عرصے تک اقتدار میں نہیں رہا۔ باسو سترہ جنوری بروز اتوار مشرقی کولکتہ میں انتقال کرگئے تھے۔ ڈاکٹروں کے مطابق وہ نمونیا کا شکار ہو گئے تھے۔

مغربی بنگال میں لوگ جیوتی باسو کو جیوتی بابو کے نام سے بھی پکارتے ہیں۔ ان کا جنم آٹھ جولائی سن 1914ء کو کولکتہ کے ایک مڈل کلاس گھرانے میں ہوا۔ ان کے والد پیشے کے اعتبار سے ایک ڈاکٹر تھے، جو سابقہ مشرقی بنگال یعنی موجودہ بنگلہ دیش سے مغربی بنگال آئے تھے۔ ابتدائی تعلیم کولکتہ کے سینٹ زیویرس اور گریجوایشن کی ڈگری پریذیڈینسی کالج سے حاصل کرنے کے بعد باسو لندن گئے، جہاں انہوں نے بار کا مطالعہ کیا۔

لندن سے واپسی کے بعد بائیں بازو کے اس بنگالی سیاستدان نے خود کو پوری طرح سے کمیونسٹ تحریک کے لئے وقف کر دیا۔ باسو سن 1946ء میں پہلی مرتبہ ریاستی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے۔ سن 1957ء میں وہ مغربی بنگال کی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر بنے اور پھر سن 1977ء تا 2000ء وہ مغربی بنگال کے وزیر اعلیٰ رہے۔

سن 1996ء میں جیوتی باسو کو بھارت کا وزیر اعظم بننے کا سنہری موقع بھی ملا، جسے انہوں نے گنوا دیا۔ تاہم پیشکش ٹھکرانے کے اپنے اس فیصلے کے کچھ عرصے بعد ہی باسو نے اسے ایک ’’تاریخی غلطی‘‘ قرار دیا تھا۔

رپورٹ: گوہر نذیر گیلانی

ادارت: مقبول ملک