1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

آپ اپنے بچے کا نام ’ابلیس‘ نہیں رکھ سکتے، جرمن حکام

26 اکتوبر 2017

جرمنی میں لازمی نہیں کہ آپ کے مرضی کے مطابق ہی آپ کے بچے کا نام رکھنے کی اجازت دی جائے۔ اس ملک میں خدا کی تعریف والے نام تو چلتے ہیں لیکن شیطان سے تعلق والے نام مناسب نہیں۔ کئی دیگر ملکوں میں تو قوانین اس سے بھی سخت ہیں۔

https://p.dw.com/p/2ma8s
Deutschland Bevölkerungsentwicklung Symbolbild Neugeborene
تصویر: picture-alliance/dpa/W. Grubitzsch

جرمنی کے شہر کاسل میں رجسٹری آفس کے ملازمین نے یہ تو لازمی سوچا ہوگا کہ یہ کیسا نام ہے؟ اس شہر میں والدین اپنے نوزائیدہ بچے کا نام لوسیفر (ابلیس) رکھنا چاہتے تھے۔ مقامی انتظامیہ نے بچے کے لیے اس غیرمعمولی نام کو مسترد کر دیا لیکن والدین نے بھی یہ فیصلہ ماننے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے بچے کا نام وہی رکھیں گے، جو وہ چاہتے ہیں۔

اس کے بعد یہ کیس عدالت میں چلا گیا، جہاں والدین کو اس حوالےسے قائل کر لیا گیا کہ وہ اپنے بچے کو وہ نام نہ دیں، جسے دنیا بھر میں برا بھلا اور بدی کا مرکز قرار دیا جاتا ہے۔ اب ان جرمن والدین نے اپنے بیٹے کا نام لوسیان رکھ لیا ہے۔

لفظ لوسیفر کا لاطینی زبان میں مطلب ’صبح کا ستارہ‘ ہے لیکن اب یہ لفظ ابلیس کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ عیسائی روایات کے مطابق شیطان پر خدائی لعنت سے پہلے اسے لوسیفر کے نام سے ہی پکارا جاتا تھا۔ اب تمام بڑے مذاہب میں لوسیفر کو ابلیس یا پھر شیطان کے نام سے پکارا جاتا ہے۔

Holzschnitt Petrarcameister, Alptraum
تصویر: picture-alliance/akg-images

جرمن زبان کی ایسوسی ایشن (جی ایف ڈی ایس) کے مطابق بھی یہ نام بچے کے لیے مناسب نہیں ہے اور اس سے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ اس تنظیم سے وابستہ خاتون ریسرچر فراؤکے روڈے بُش کا جرمن اخبار دی ویلٹ سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’جب بھی اس طرح کے نام کا کوئی مسئلہ درپیش ہوتا ہے، تو فیصلہ بچے کے مستقبل اور اس کو پیش آنے والے ممکنہ مسائل کو دیکھتے ہوئے کیا جاتا ہے۔‘‘

جرمنی میں اس حوالے سے ایسا کوئی واضح قانون موجود نہیں ہے، جس کے تحت والدین  کو مخصوص نام رکھنے سے روکا جا سکے لیکن والدین کو یہ اجازت بھی نہیں ہے کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق جو نام چاہیں رکھ لیں۔ یہ مقامی رجسٹرار کا کام ہے کہ وہ برتھ سرٹیفیکیٹ پر کچھ لکھنے سے پہلے ہر نام کی اچھی طرح جانچ پڑتال کرے۔

اگر رجسٹری آفس کے ملازمین کسی نام کے حوالے سے غیر یقینی صورتحال کا شکار ہوں تو وہ جرمن زبان کے ادارے جی ایف ڈی ایس سے رابطہ کر سکتے ہیں۔ یورپ کے مختلف ملکوں میں بچوں کے ناموں کے حوالے سے مختلف قوانین ہیں۔

 مثال کے طور پر آئس لینڈ میں حکومت نے ایک فہرست تیار کر رکھی ہے، جس میں تقریبا اٹھارہ سو پچاس بچیوں اور سترہ سو لڑکوں کے نام شامل ہیں۔ والدین ان میں سے کوئی بھی نام منتخب کر سکتے ہیں اور اگر وہ کوئی نیا نام رکھنا چاہتے ہیں تو انہیں ’آئس لینڈ نیمنگ کمیٹی‘ سے رابطہ کرنا ہوتا ہے اور اس حوالے سے کئی مشکل مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ ناموں کے حوالے سے سب سے آسان قوانین امریکا کے سمجھے جاتے ہیں۔