1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اب شامی مہاجرخواتین گھر کی کفالت میں مصروف

صائمہ حیدر10 ستمبر 2016

ایک بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیم کے مطابق شام میں مہاجرین کے بحران کی وجہ سے شامی خواتین اب اپنے گھر کی سربراہ کی حیثیت اختیار کر تی جا رہی ہیں۔ یہ خواتین ملازمت کر کے اپنے گھر کا بوجھ اٹھانے کی کوشش میں ہیں۔

https://p.dw.com/p/1Jzkv
Situation der Frauen in Syrien
شام میں خانہ جنگی سے پیدا ہونے والے مہاجرین کے بحران نے خاتون کے روایتی کردار کو بدلنا شروع کر دیا ہےتصویر: Reuters/U.Bektas

بین الاقوامی امدادی ادارے ’کئیر‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق زیادہ تر شامی خواتین اس تبدیلی کو منفی اندز میں دیکھتی ہیں۔ بہت سی خواتین یہ محسوس کرتی ہیں کہ کام کی تلاش میں انہیں تشدد، بد سلوکی اور بدتہذیبی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ’کئیر‘ نے رواں ماہ امریکی ریاست نیو یارک میں ہونے والے مہاجرین سے متعلق عالمی کانفرنس میں عالمی رہنماؤں سے مطالبہ کیا ہے کہ پناہ گزین خواتین کے مسائل کو اجلاس میں مرکزی موضوع بنایا جائے۔

جنگ زدہ ملک شام سے قریب 4.8 ملین شامی افراد نے ہمسایہ ممالک میں پناہ لے رکھی ہے۔ ان شامی مہاجرین میں سے کئی نے یورپ پہنچنے کے لیے اپنی زندگیوں کو خطرے میں ڈال رکھا ہے۔ ’کئیر‘ کے پالیسی ایڈوائزر ہوارڈ مولیٹ نے تھامس روئٹرز فاؤنڈیشن کو بتایا ،’’ ہماری نظر میں یہ صورت حال پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے بعد پیدا ہونے والے حالات سے بہت ملتی جلتی ہے جب یورپ میں خواتین کو گھر کی کفالت کے لیے مرد کا کردار نبھانا پڑا تھا۔ اس کے منفی اور مثبت دونوں پہلو ہیں۔‘‘

Syrien Flüchtlinge Frauen mit Kind Symbolbild
بعض مہاجر خواتین کے مطابق سفری دستاویزات کی حفاظت کے عوض انہیں جنسی تعلق قائم کرنے پر مجبور کیا گیاتصویر: picture-alliance/Photoshot/Xinhua/M. Abu Ghosh

ایک شامی پناہ گزین خاتون، بتول نے جو شام میں جنگ کے آغاز سے قبل بمشکل ہی گھر سے باہر نکلتی تھی، نےکئیر کو بتایا کہ وہ کئی ماہ تک ہزاروں کلو میٹر کا سفر طے کر کے اپنے چھوٹے بچے کے ساتھ اپنے شوہر کے پاس جرمنی پہنچی۔ جرمنی پہنچنے کے بعد سب سے پہلے بتول جرمن زبان سیکھ کر کوئی ملازمت اختیار کرنا چاہتی ہے۔ بتول نے کئیر سے بات چیت کرتے ہوئے کہا،’’ میرا شوہر روایتی ہے لیکن اس معاملے میں وہ میرا ساتھ دے گا۔ خواتین مضبوط ہیں اور اب ہمیں نیا رول نبھانا ہے۔‘‘

دوسری جانب امدادی کارکنوں کا کہنا ہے کہ بلقان سے آنے والی خواتین انتہائی غیر محفوظ ہیں۔ عموماﹰ ان کے پاس مردوں کی نسبت کم پیسے اور وسائل ہوتے ہیں۔ کئیر نے بتایا کہ کچھ ماؤں نے جو بچوں کے ساتھ تنہا سفر کر رہی تھیں، صرف اس امید پر کسی مرد سے جنسی روابط استوار کر لیے کہ وہ سفر کے دوران ان کی اور ان کے بچوں کی حفاظت کریں گے۔ بعض مہاجر خواتین نے یہ بھی بتایا کہ سفری دستاویزات کی حفاظت اور دیگر سہولیات دینے کے عوض انہیں جنسی تعلق قائم کرنے پر مجبور کیا گیا۔

رواں ماہ نیویارک میں ہونے والے مہاجرین کے اجلاس کا بنیادی مقصد مہاجرین کے بحران کے تناظر میں انسانی بنیادوں پر بین الاقوامی رائے عامہ کو زیادہ سے زیادہ ہموار کرنا ہے۔