1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

احمدیوں کے خلاف پوسٹر لگانے والا دوکان دار گرفتار

عابد حسین14 دسمبر 2015

پاکستانی پولیس نے ایک دوکان دار کو نفرت انگیز پوسٹر اپنی دوکان پر نصب کرنے کے الزام میں گرفتار کر لیا ہے۔ یہ گرفتاری نیشنل ایکشن پلان کے تحت لاہور میں کی گئی۔

https://p.dw.com/p/1HMwj
احمدیہ کمیونٹی کو مذہبی اشتعال انگیزی کا سامنا ہےتصویر: picture-alliance/dpa

پولیس کے مطابق گرفتار ہونے والے دوکان دار کا نام عابد ہاشمی ہے۔ اُس کی دوکان لاہور کے علاقے گلبرگ کے اہم کاروباری مرکز حفیظ سینٹر میں واقع ہے۔ وہ اپنی دوکان پر کمپیوٹر کے پرزہ جات اور دوسرے سوفٹ ویئر کی فروخت کرتا ہے۔ اُس نے اپنی دوکان کے باہر ایک پوسٹر پر انتہائی واضح اور جلی حروف میں لکھ کر لگا رکھا تھا کہ ’’احمدی گاہکوں کا داخلہ بند ہے‘‘۔ نیوز ایجنسی اے ایف پی کو ایک اعلیٰ پولیس اہلکار نے بتایا کہ یہ گرفتاری نیشنل ایکشن پلان کے تحت کی گئی ہے۔

عابد ہاشمی کی گرفتاری ضابطہٴ فوجداری پاکستان کی شق 295-A کے تحت عمل میں لائی گئی ہے۔ لاہور کے ڈپٹی انسپیکٹر جنرل پولیس ڈاکٹر حیدر اشرف کا کہنا ہے کہ نیشنل ایکشن پلان کا اطلاق کرتے ہوئے اِس پر عمل کیا جائے گا اور کسی بھی فرد یا جماعت کو نفرت انگیزی پھیلانے کی اجازت کسی قیمت پر نہیں دی جائے گی۔ احمدیہ کمیونٹی کے ایک ترجمان عامر محمود نے دوکان دار کی گرفتار کا خیرمقدم کرتے ہوئے اِسے بارش کا پہلا قطرہ قرار دیا ہے۔ اِسی طرح سابق رکنِ پارلیمان اور ممتاز کالم نگار ایاز امیر نے اِس پولیس ایکشن کو انتہائی اہم قرار دیتے اِس خیال کا اظہار کیا کہ یہ امکاناً احمدیوں پر مظالم میں کمی کا باعث بنے گا۔

Ahmadiyya Minderheit in Pakistan
احمدی گروپ کے افراد نماز ادا کرتے ہوئےتصویر: Getty Images

نیشنل ایکشن پلان حکومت کی ایک گرینڈ اسکیم ہے اور اِس کے تحت ملک بھر میں انتہا پسندی کے انسداد کو وقعت دی گئی ہے۔ یہ ایکشن پلان حکومت نے تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ مشاورت کے بعد گزشتہ برس منظور کیا تھا۔ اِس پلان کی منظوری آرمی پبلک اسکول پر حملے کے بعد دی گئی تھی۔ ایسا خیال کیا جا رہا ہے کہ احمدی (قادیانی) مخالف مذہبی جماعتیں عابد ہاشمی کی گرفتاری کو نزاعی معاملہ بنانے سے گریز نہیں کریں گی۔ دوسری جانب یہ گرفتاری ایسے وقت میں کی گئی ہے جب پاکستان میں پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر طالبان کے دہشت گردانہ حملے کی پہلی برسی منائی جانے والی ہے۔ اِس دہشت گردانہ واقعے میں ڈیڑھ سو سے زائد طلبہ اور اساتذہ ہلاک ہوئے تھے

احمدی مذہبی اقلیت کو پاکستان میں قانون کے تحت تقریباً چالیس برس قبل اسلام سے خارج قرار دیا گیا ہے۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اِس قانون کی آڑ میں مذہبی انتہا پسند عوام کو جوش دلا کر اِس اقلیت کے خلاف پرتشدد کارروائیاں کرنے سے گریز نہیں کرتے۔ گزشتہ ماہ پاکستانی صوبے پنجاب کے ایک دوسرے مشرقی شہر جہلم میں مشتعل ہجوم نے ایک ایسی فیکٹری کو آگ لگا دی تھی جس کا مالک احمدی کمیونٹی سے تعلق رکھتا تھا۔ اِس فیکٹری میں کام کرنے والے ایک احمدی ملازم پر الزام عائد کیا گیاتھا کہ اُس نے فیکٹری میں قران کے صفحات جلائے تھے۔