1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’ارطغرل غازی‘، یکطرفہ ٹریفک نہیں چلنا چاہیے

حسن کاظمی
19 مئی 2020

پاکستان کے سرکاری ٹی وی چینل پاکستان ٹیلی ویژن (پی ٹی وی) کی جانب سے ترک ڈرامے ارطغرل غازی کو اردو زبان میں ڈب کر کے دکھائے جانے پر ملک میں بحث کا سلسلہ جاری ہے۔ اس حوالے سے پڑھیے حسن کاظمی کا بلاگ۔

https://p.dw.com/p/3cTJk
حسن کاظمیتصویر: Privat

پاکستان کے کچھ معروف فنکاروں کی جانب سے اس کے خلاف شدید ردّعمل سامنے آیا ہے جبکہ دوسری جانب پاکستان کے کئی نامور فنکار جن میں ہمایوں سعید اور بلال اشرف بھی شامل ہیں، انہوں نے ارطغرل کی تعریف کی ہے اور اسے سراہا ہے۔

ارطغرل کے خلاف سب سے پہلے اداکار شان نے ٹوئیٹر پر لکھا کہ پی ٹی وی کو چاہیے کہ اپنی تاریخ پر ایسے ڈرامے خود بنائے۔ اس کے بعد ریما خان نے ان کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ جب آپ کے اپنے فنکار بے روزگار بیٹھے ہوں تو ایسے میں بیرونی مواد کی ترویج بے معنی ہے۔ اداکار و میزبان یاسر حسین نے بھی اس میدان میں کودتے ہوئے کہا کہ ترکی کے ڈرامے اور لنڈے کے کپڑے مقامی صنعت کو تباہ کردیں گے۔

جب یاسرحسین پر نکتہ چینی ہوئی تو ان کا کہنا تھا کہ جب ''آپ کے بھائی، بہن اور والد کو نوکری سے نکال کر کسی ترک کو نوکری دی جائے گی تب آپ کو میری بات سمجھ میں آئے گی۔‘‘

یاسرحسین کے اعتراض کا فوری جواب تو یہ ہے کہ یہ وہی دلیل ہے جو بھارت میں پاکستانی فنکاروں کو بالی وڈ سے بے دخل کرنے کے لیے استعمال کی گئی تھی یعنی آسان الفاظ میں 'ہائپر نیشنلزم ‘ کا استعمال۔ یاسر حسین سے پوچھا جانا چاہیے کہ یورپ، امریکا سمیت کئی ممالک میں جو پاکستانی بینک اور اسکولوں وغیرہ میں کام کر رہے ہیں کیا انہیں وہاں سے نکال دینا چاہیے؟ اور اگر ان کی یہ دلیل مان لی جائے تو سوال بھی پیدا ہو گا کہ ہمارے فنکار جو مختلف اطالوی، فرانسیسی، برطانوی اور امریکی برانڈ کے کپڑوں، جوتوں، گھڑیوں، گاڑیوں، دھوپ کے چشموں کی نمائش کرتے رہتے ہیں کیا ان کے اس قدم سے مقامی صنعت تباہ نہیں ہو رہی اور یہ فنکار مقامی طور تیارکردہ اشیاء کیوں نہیں خریدتے۔ شاید ہی کوئی فنکار ہو جو اپنے میک اپ کے لیے مقامی برانڈ استعمال کرتا ہو۔ ابھی حال ہی میں لاک ڈاؤن کے دوران کراچی کے ساحل پر کئی فنکار سائیکل چلاتے ہوئے پائے گئے اور کئی نے اپنی تصاویر بھی سوشل میڈیا پر لگائیں، ان سب کی سائیکلیں بھی بیرونِ ملک سے درآمد شدہ تھیں۔

اگر دیکھا جائے تو ترکی کی آبادی تقریباً سوا آٹھ کروڑ ہے اور اس کی 2018ء میں جی ڈی پی یا مجموعی قومی پیداوار 771 ارب ڈالرتھی۔ اس کے مقابلے میں پاکستان کی آبادی 22 کروڑ ہے اور 2018ء میں اس کا جی ڈی پی 314 ارب ڈالر تھا۔ یعنی ترکی کے لیے پاکستان اتنی پرکشش مارکیٹ نہیں جتنی پاکستان کے لیے ترکی ہے۔ یہ ایک لحاظ سے پاکستانی پروڈیوسرز کے لیے موقع ہے کہ وہ ایسا مواد تیار کریں جو ترکی میں بھی بیچا جاسکے جبکہ ترکی پاکستانی پروڈیوسرز کی مدد بھی کرتا ہے۔ ماضی قریب میں جاوید شیخ صاحب کی فلم 'وجود‘ کا بیشتر حصہ ترکی میں فلمایا گیا اور انہیں نہ صرف ترکی کی حکومت اور وہاں کے محکمئہ سیاحت کی جانب سے مدد فراہم کی گئی بلکہ ترکش ایئرلائنز نے بھی ان سے مکمل تعاون کیا جس سے فلم کی لاگت کم رکھنے میں مدد ملی۔

یہ بھی یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ 'ارطغرل‘کوئی پہلا ترک ڈرامہ نہیں جو پاکستان میں مقبول ہوا ہے۔ اس سے پیشتر 'عشقِ ممنوع‘  اور 'میرا سلطان‘ بھی اپنے زمانے میں انتہائی مقبول رہے ہیں۔ تاہم بعد ازاں پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی کی جانب سے اس پر پابندی لگادی گئی۔ اب وزیرِ اعظم عمران خان کی جانب سے پی ٹی وی پر ارطغرل چلانے پر یہ بحث ایک بار پر شدت اختیار کر رہی ہے۔

تاہم سوال یہ ہے کہ کیا سرکاری ٹی وی کا اس طرح ڈرامے درآمد کرکے چلانا درست ہے؟ پاکستان میں ایک ڈرامے پر ڈیڑھ کروڑ سے لے کر چار کروڑ روپے کی لاگت آتی ہے۔ اس کے مقابلے میں درآمد شدہ ڈرامہ 20 سے پچیس لاکھ میں مل جاتا ہے اور پھر اس کی اردو ڈبنگ پر بھی زیادہ رقم خرچ نہیں ہوتی اور ٹی وی چینل کو ایک سستا مواد مل جاتا ہے۔ ارطغرل کے بارے میں پی ٹی وی کے ذرائع سے معلوم ہوا کہ یہ ٹی وی سیریز ، سرکاری ٹی وی کو کوڑیوں کے بھاؤ ملی ہے اور اس پر صرف اردو ڈبنگ کا ہی خرچہ ہوا ہے۔

ایک سوال یہ بھی ہے کہ آیا سرکاری ٹی وی اپنی ثقافت چھوڑ کر بیرونِ ملک کی تاریخ و ثقافت کیوں دکھا رہا ہےجبکہ پاکستان میں ایسے کئی موضوعات ہیں جن پر ڈرامے اور فلمیں بنائی جاسکتی ہیں۔ سینئر اداکار و ہدایتکار جمال شاہ کے مطابق پی ٹی وی کو ہماری سر زمین کے ہیرو اور غدّاروں دونوں پر ڈرامہ بنانا چاہیے۔ ارطغرل کے بارے میں البتہ ان کا کہنا ہے کہ سرکاری چینل کی جانب سے اردو میں ڈب کرکے ڈرامہ چلانا مناسب نہیں کیونکہ پی ٹی وی کا کام ہے پاکستان کی ثقافت اور تاریخ کو اقوامِ عالم تک پہنچانا۔ یہ اگر کسی ایکسچینج پروگرام کے تحت ہوتا تب بھی قابلِ قبول تھا، جیسے ایک زمانے میں سارک کے تمام رکن ممالک ایک دوسرے کے کچھ پروگرام اپنی اپنی سرکاری چینل پر خیر سگالی کے طور پر چلایا کرتے تھے۔ یعنی یہ یکطرفہ راستہ نہیں ہونا چاہیے جہاں سے صرف درآمد کیا جارہا ہو اور برآمد نہ کیا جارہا ہو۔

غیر ملکی ڈرامے کی پاکستان میں مقبولیت کے حوالے سے ملکی فنکاروں کو خود بھی یہ سوچنا چاہیے کہ وہ خود کیا کر رہے ہیں۔ ایک طرف تو پاکستان میں ہمایوں سعید اور مہوش حیات جیسے انتہائی پروفیشنل مزاج کے اداکار ہیں جو ہر کام وقت پر کرتے ہیں، لیکن دوسری جانب اور یہ میں اپنے ذاتی تجربے سے لکھ رہا ہوں کہ بہت سے ایسے ہیں جو خود کو پاکستان کی پوری صنعت سے بڑا سمجھتے ہیں اور کام کرنے میں شدید نخرے دکھاتے ہیں۔ پاکستان میں کام کرنے والے پروڈیوسرز کے پاس محدود رقم ہوتی ہے جس میں وہ اپنا کام ختم کرنا چاہتے ہیں جبکہ سیٹ پر کچھ فنکار سوشی کھانے کی فرمائش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جب تک نہیں آئے گی عکس بندی شروع نہیں کریں گے۔ ان فنکاروں کا سیٹ پر دیر سے آنا تو کسی گنتی ہی میں نہیں اور دو تین گھنٹے کی دیر معمولی بات ہے۔ ہمارے ایک ہدایتکار کہتے ہیں کہ ہمارے کئی ہیرو تو ہیروئن سے زیادہ نخرے کرتے ہیں۔ دوسری جانب کئی ہیروئنز کا یہ عالم ہے کہ انہیں یہ پریشانی مار دیتی ہے کہ کسی دوسری لڑکی کے سین ان سے زیادہ تو نہیں، ہمارے کپڑے باہر سے منگوائیں، ہم صرف امپورٹڈ میک اپ کا سامان استعمال کریں گے وغیرہ۔ ان ساری حرکتوں سے پروڈکشن مہنگی ہوجاتی ہے اور پروڈیوسر مارا جاتا ہے۔ اس لیے ہمارے فنکار ذرا اپنی اداؤں پر بھی غور کرلیں تو مہربانی ہوگی۔

ڈی ڈبلیو کے ایڈیٹرز ہر صبح اپنی تازہ ترین خبریں اور چنیدہ رپورٹس اپنے پڑھنے والوں کو بھیجتے ہیں۔ آپ بھی یہاں کلک کر کے یہ نیوز لیٹر موصول کر سکتے ہیں۔