1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ترک ڈرامے عرب دنیا اور پاکستان میں اتنے مقبول کیوں؟

6 جنوری 2021

ترک ٹیلیوژن ڈرامے مشرق وسطیٰ میں دھوم مچائے ہوئے ہیں۔ بہت مختصر عرصے میں عثمانیہ ٹیلی وژن سلطنت نے علاقائی زبانوں، ناموں اور ڈراموں کے روایتی پلاٹس کی پیشکش سے اپنے ناظرین کی دیرینہ خواہش پوری کر دی ہے۔

https://p.dw.com/p/3naeB
Pakistan | Statue nach türkischer Fernsehserie in Lahore aufgebaut
تصویر: Reuters/M. Raza

ترک سیٹلائٹ اسٹیشن کو لانچ ہوئے ابھی صرف 15 سال گزرے ہیں لیکن اس نے عالمی نشریات شروع کر دیں۔ ایک انتہائی مقبول ٹی وی ڈرامہ سیریز '' ڈیزی‘‘ نشر ہوتے ہی مشرق وسطیٰ کے ناظرین کی غیر معمولی دلچسپی کا سبب بنا کیونکہ اس خطے کے شائقین و ناظرین جو ایک عرصے سے اپنے ہاں نشر ہونے والی محدود نشریات یعنی امریکی، میکسیکن یا کورین ڈراموں سے تھک چُکے تھے اور کچھ نئے اور زیادہ پُر کشش، دلچسپ اور تاریخی نوعیت کے پروگراموں کے لیے ترس رہے تھے۔

مشرق وسطیٰ میں ٹیلی وژن سیٹ رکھنے والے گھرانوں کی تعداد قریب 200 ملین ہے۔ ان میں سے ایک بڑی تعداد کے لیے انتہائی خوبصورت اور رومانوی ترک ڈرامے ایک انوکھی کشش رکھتے ہیں۔ عربی زبان میں ڈب کیے گئے ترک ڈراموں کے نہایت وجیح ہیرو، ان کے عرب نام اور اسلامی تاریخ سے ماخوذ پلاٹس پر بنے ہوئے ڈراموں نے تمام شائقین کی دیرینہ خواہش پوری کر دی ہے۔ انتہائی مہنگی پروڈکشن والے یہ قسط وار روزانہ نشر ہونے والے ڈرامے زیادہ تر دو گھنٹوں پر محیط ہوتے ہیں جو رومانویت، عشق و محبت، 'ارینجڈ میرج‘ یا گھروالوں کی طرف سے طے شدہ شادیوں، بڑے خاندان، پدر سری معاشرتی اقدار اور انصاف کے نام پر کھڑی کی جانے والی رکاوٹوں کے سلسلے میں ہونے والے جھگڑے جیسے موضوعات کے حامل ہوتے ہیں۔

Türkische Fernsehproduktion | 1001 nights
ترک ڈرامہ سیریل ’الف لیلیٰ‘تصویر: Tmc film

مقبول ترک ڈرامہ سیریل الف لیلیٰ، نور، شاندار صدی، قیامت، ارطغرل جیسے خوش اسلوب، ڈرامے جن کی زیادہ تر شوٹنگ آؤٹ ڈور ہوئی اور اس میں استعمال ہونے والی جانی پہچانی یا آشنا موسیقی اور بہت کچھ شائقین کی غیر معمولی دلچسپی کا سبب ہے۔

 

 اسلام مخالف 'تخریبی‘  ڈرامے   

گزشتہ برس یعنی 2020ء میں اپریل سے قبل پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے کہا تھا کہ پاکستان کا ریاستی نشریاتی ادارہ ڈرامہ سیریل قیامت نشر کرے گا۔ اس نے پاکستان میں ترک صدر رجب طیب ایردوآن کی مقبولیت میں غیر معمولی اضافہ کیا۔ اس بارے میں سنگاپور میں قائم ایس راجارتنم 'اسکول آف انٹرنیشنل اسٹڈیز اور مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ‘ کے سینیئر فیلو جیمز ایم ڈورسی نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ''ایک اسلام پسند ترکی پاکستان کے لیے ایک رول ماڈل بن گیا ہے۔‘‘ ڈرامہ سیریل اس سلسلے میں ایک استثنا ہے کیونکہ پاکستان میں نشریاتی مواد کے تحفظ کے نئے قوانین کے سبب اس کی ڈبنگ پر پابندی ہے۔ اب ترکی ڈرامے 'سب ٹائٹلز‘ کے ساتھ چلتے ہیں اور اس کے سبب ان کی درجہ بندی میں گرواٹ آئی ہے۔

ترک ٹیلی وژن انڈسٹری کی آمدن

پانچ سال قبل ترک ٹیلی وژن کی صنعت سالانہ 80 ملین ڈالر محض مشرق وسطیٰ سے کما رہی تھی۔ 2020ء میں یہ 15 ملین ڈالر پر آ گئی۔ 2018ء سے قبل مشرق وسطیٰ ترک ڈراموں کے لیے  سب سے بڑی مارکیٹ تھا۔ اب وہاں ایک غیر سرکاری بائیکاٹ جاری ہے جس کے سبب محصولات میں 80 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔#

Türkische TV-Soap TV 'Noor'
ترک ٹی وی ڈرامہ ’نور‘۔تصویر: ABED ALHAFIZ HASHLAMOUN/dpa/picture-alliance

سعودی عرب کی حکومت اور ایم بی سی نے مارچ 2018ء میں سعودی عرب کے مفتی اعظم شیخ عبد العزیز الشیخ نے ڈرامہ سیریل ''نور‘‘ کو ''اسلام مخالف‘‘ اور''تخریبی‘‘ قرار دیا اور دعویٰ کیا کہ ٹیلی ویژن چینلز جو اس پروگرام کو نشر کرتے ہیں وہ''خدا اور اس کے نبی کے دشمن ہیں‘‘۔ اس کے بعد بہت سارے بڑے خریداروں نے ہاتھ کھینچ لیے۔

مصر کی مارکیٹ بھی ہاتھ سے گئی

مصر میں 2013ء میں صدر محمد مرسی ) جنہیں ترک صدر ایردوآن کی حمایت حاصل تھی( کے خلاف فوجی بغاوت کے بعد ترک ٹیلی وژن پر پابندی عائد ہو گئی۔ اب بھی ترکی کی طرف سے اخوان المسلمون اور دیگر اسلامی تحریکوں کی حمایت مصر میں ترکی اور ترک پروڈکشن کی  نشریات کی مخالفت کی اصل دلیل کے طور پر استعمال کی جاتی ہے۔

Türkei Istanbul Schauspieler  Kivanc Tatlitug
ترک ڈرامے ’نور‘ کی ہیروئن کیوانچ تاتلیتوگ۔تصویر: MOHAMMED MAHJOUB/AFP/Getty Images

 

 ترک ڈیزی آن لائن

سعودی عرب اور مصر میں ناکامیوں کے باوجود، ترکی اپنے ڈراموں کو کامیابی کے ساتھ  یوٹیوب، اسٹارز پلے، نیٹ فلیکس، ایم بی سی اور او ایس این جیسے پلیٹ فارمز کے توسط سے نشر کر رہا ہے۔ اُدھر ترکی کے حریف بھی ان پلیٹ فارمز کی طرف راغب ہو رہے ہیں۔  سعودی عرب اور متحدہ عرب امارت کے 40 ملین ڈالر کے سرمائے سے تیار کی جانے والی 'کنگڈم آف فائرز‘ نومبر 2019 ء میں آن لائن پلیٹ فارمز پر نشر ہونا شروع ہوئی۔

اگرچہ مصر کی مملوک سلطنت اور عثمانی سلطان سلیم کے مابین لڑائی تاریخ کا حصہ ہے، لیکن سعودی فلم سازوں کی ایک پوری نئی نسل آنے والے سالوں میں اثر و رسوخ کی جنگ لڑ سکتی ہے، کیوں کہ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے ملک کے تفریحی شعبے میں 64 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا ہے ۔

ک م / اب ا (جینیفر ہولائز)

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں