1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اسرائیلیوں پر پتھر پھینکے والے فلسطینیوں کی نئی نسل

امتیاز احمد30 اکتوبر 2015

تقریباﹰ تیس برس پہلی انتفادہ کے دوران ہشام اور اس کے بھائی بیت لحم کے جنوب میں واقع فلسطینی مہاجر کیمپوں میں رہتے ہوئے اسرائیلی فورسز کے خلاف پتھر پھینکتے تھے۔ آج اسرائیلی قبضے کے خلاف اس کے بیٹے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1Gx8j
Westjordanland Bethlehem Nähe Dheisheh Flüchtlingslager Palästinenser Steinewerfer
تصویر: picture-alliance/AA/M. Amren

اب ہشام کی کی عمر تقریباﹰ اکاون برس ہو چکی ہے اور وہ اپنے بیٹوں کو وہی کچھ کرتے ہوئے دیکھ رہا ہے، جو آج سے تیس برس پہلے کی انتفادہ تحریک کے دوران اسرائیلی فورسز کے خلاف وہ خود کرتے رہے ہیں۔ بیت لحم کو اسرائیل کی طرف سے تعمیر کردہ بڑی دیوار نے گھیر رکھا ہے لیکن اس کے قدموں میں فلسطینیوں اور اسرائیلی فورسز کے مابین تواتر سے جھڑپیں جاری ہیں۔ ابھی تک ان جھڑپوں میں 62 فلسطینی اور نو اسرائیلی ہلاک ہو چکے ہیں۔ ہشام کا نیوز ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’میں اپنے بیٹوں کو کیسے کہہ سکتا ہوں کہ وہاں (احتجاجی مظاہروں) میں نہ جایا کریں۔‘‘

حالیہ کچھ عرصے سے فلسطینیوں اور اسرائیلی فورسز کے مابین خونریز جھڑپیں جاری ہیں۔ ایسے خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ اسرائیل کے خلاف فلسطینیوں کی تیسری بغاوت یا تیسری انتفادہ تحریک کا آغاز ہو سکتا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق بیت لحم کے جنوب میں واقع فلسطینی پناہ گزینوں کے مخيم الدہيشہ جیسے کیمپ ان جھڑپوں میں ایندھن کا کام کر رہے ہیں۔ ایسے کیمپ سن 1948ء میں اس وقت بنائے گئے تھے، جب اسرائیل کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اسرائیل مقبوضہ زمین پر مزید بستیاں تعمیر کرتا جا رہا ہے اور ان کیمپوں میں رہنے والے فلسطینیوں کی امیدیں دم توڑتی جا رہی ہیں۔

Westjordanland Bethlehem Nähe Dheisheh Flüchtlingslager Palästinenser Molotow-Cocktail
تصویر: picture-alliance/AA/M. Amren

تیس برس پہلے اور موجودہ صورتحال میں کوئی بڑا فرق نہیں آیا۔ موجودہ خونریز جھڑپوں میں بھی شامل زیادہ تر فلسطینی نوجوانوں کا تعلق انہی فلسطینی کیمپوں سے ہے، جن سے فلسطینیوں کی پہلی نسل کا تھا۔

فلسطین میں دائیں بازو کی جماعت ’لبریشن آف فلسطین‘ کے لیڈر محمود فنون کا کہنا تھا، ’’جدوجہد ہمیشہ سے شام، فلسطین، لبنان اور اردن کے فلسطینی مہاجر کیمپوں میں پیدا ہوئی ہے۔ یہ فلسطینی مہاجر ہی ہیں، جو اپنے مقصد کو اپنے وجود اور جسم کے ساتھ اٹھائے چل پھر رہے ہیں۔‘‘

اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت فلسطینی مہاجرین کی تعداد تقریباﹰ پچاس لاکھ ہے اور ان میں سے ایک تہائی اردن، لبنان، شام، غزہ پٹی اور مغربی کنارے کے اٹھاون کیمپوں میں مقیم ہیں جبکہ یہ عارضی گھر ابلتی ہوئی غربت کے شہروں میں تبدیل ہو چکے ہیں۔

فلسطین اور اسرائیل کے تنازعے میں مہاجرین کا مسئلہ بھی انتہائی نازک صورتحال اختیار کر چکا ہے۔ اسرائیلیوں کے مطابق فلسطینی مہاجرین کو واپس اپنے گھروں میں واپسی کا حق دینے سے ان کے وجود کو خطرہ لاحق ہیں کیوں کہ اب ان گھروں میں یہودی خاندان آباد ہو چکے ہیں۔

بیت لحم کے کیمپ میں رہنے والے ہشام اور ان کے پانچ بھائی اپنی زندگی کے متعدد ادوار اسرائیلی جیلوں میں گزار چکے ہیں۔ ہشام کا نیوز ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’جب صبح کو میں اپنے گھر سے نکلتا ہوں تو مجھے یہ نہیں معلوم ہوتا کہ واپسی ہو گی یا نہیں۔ میں کسی وقت بھی کسی اسرائیلی فوجی یا یہودی آباد کار کے ہاتھوں گرفتار ہو سکتا ہوں یا مارا جا سکتا ہوں۔‘‘ ہشام کے دو بیٹے اس وقت پتھر پھینکے والے گروپ میں شامل ہو چکے ہیں جبکہ ایک اسرائیلی جیل میں ہے۔

یہ مہاجرین نہ صرف اسرائیل سے نالاں ہیں بلکہ اپنی اس قیادت سے بھی جو اپنے وعدے پورے کرنے میں ناکام رہی ہے۔ ہشام کا کہنا تھا، ’’جو لوگ امن اور مذاکرات کی بات کرتے ہیں، ان کی طرف دیکھیں۔ انہوں نے قیمتی سوٹ اور ٹائیاں لگائی ہوتی ہیں۔ کیا وہ کہیں سے بھی ہم جیسے نظر آتے ہیں؟‘‘