1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اسرائیل فلسطینی علاقے ہڑپ کر لے تو کیا فرق پڑے گا؟

شاہ زیب جیلانی
30 جون 2020

بینجمن نیتن یاہو 'گریٹر اسرائیل‘ کے خواب کی تکمیل کے لیے جلد مشرق وسطیٰ کا نقشہ بدلنے جا رہے ہیں اور بظاہر دنیا یہ سب ہوتا دیکھتی رہ جائے گی۔ شاہ زیب جیلانی کا تجزیہ

https://p.dw.com/p/3eaCo
Israeli Kabinettsitzung | Benjamin Netanjahu
تصویر: Reuters/A. Sultan

اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انٹونیو گوٹیریش کے مطابق اسرائیل کی طرف سے غرب اردن کا یکطرفہ الحاق ''بین الاقوامی قانون کی سب سے سنگین خلاف ورزی ہو گی۔‘‘ مسلم دنیا اور یورپی ممالک بھی فلسطینی غرب اردن کو زبردستی ہتھیانے کے اسرائیلی پلان کی مذمت اور مخالفت کر چکے ہیں۔ لیکن اس کا کوئی اثر نہیں ہوا کیونکہ وزیراعظم نیتن یاہو کو اس انتہائی متنازعہ اقدام کے لیے  امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پشت پناہی حاصل ہے۔

مشرق وسطیٰ کے مبصرین اس بات پر متفق ہیں کہ نیتن ہاہو طاقت کے زور پر جو کچھ کرنے جا رہے ہیں اس کے خطے کے امن و استحکام پر گہرے منفی اثرات پڑیں گے۔

  لوگ نہیں، زمین چاہیے

نیتن یاہو غرب اردن کا اسرائیل کے ساتھ زبردستی الحاق کرنے کے بعد اگر فلسطینیوں کو وہاں سے بیدخل کر سکتے تو شاید کر دیتے لیکن ایسا ممکن نہیں۔ غرب اردن میں فلسطینیوں کی تعداد کوئی پچیس لاکھ ہے۔ اسرائیل کا حصہ بننے کی صورت میں فلسطینی اسرائیلی آبادی کا چالیس فیصد ہو جائیں گے۔

نیتن یاہو چاہیں تو انہیں اسرائیلی شہریت دے کر برابری کے حقوق کا وعدہ کر سکتے ہیں لیکن ایسا کرنے سے اسرائیل میں فلسطینیوں کی تعداد بڑھ جائے گی، جس سے یہودی اکثریت کو خطرہ ہو سکتا ہے۔ اس لیے نیتن یاہو فلسطینیوں کو بطور شہری برابر کے حقوق دینے کے بھی خلاف ہیں۔ لیکن اگر اسرائیل نے فلسطینوں کو اپنے ہی علاقے میں دوسرے درجے کا شہری بنانے کی کوشش کی تو اس سے غم و غصہ بڑھے گا۔

جنوبی افریقہ میں سفید فام اقلیت نے ایک عرصے تک مقامی سیاہ فام آبادی پر اسی طرح حکومت کی اور اس کا استحصال کیا۔ لیکن وہاں کے لوگوں کی جدوجہد اور عالمی دباؤ کے بعد بلآخر اس نظام کا خاتمہ ہو گیا۔ اسرائیل کے لیے آج کے دور میں اسی طرح کا امتیازی نظام متعارف کرنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہو گا۔ اس روش کے آگے جا کر خطرناک نتائج بھی نکل سکتے ہیں۔

Shahzeb Jillani DW Mitarbeiter Urdu Redaktion
تصویر: DW

فرق کیا پڑے گا؟

فوری طور پر  شاید کوئی شدید ردعمل نہ ہو۔ عرب حکمران اور دیگر ملک فلسطینیوں کے ساتھ ہمدردی دکھانے کی خاطر زبانی کلامی اسرائیل کی مذمت کریں گے لیکن عملی طور پر دنیا نے بظاہر فلسطینیوں کو اب ان کے حال پر چھوڑ دیا ہے۔ بیشتر ممالک سمجھتے ہیں کہ اس مسئلے پر امریکا اور اسرائیل کے ساتھ ایک حد تک ہی محاذ آرائی کی جا سکتی ہے لیکن فلسطینیوں کی خاطر ان سے لڑا ئی نہیں کی جا سکتی۔ خود فلسطینی قیادت اتنی مایوس ہے کہ اس کا کہنا ہے کہ وہ اس کی سخت مخالفت کرے گی لیکن لوگوں کو اسرائیل کے خلاف پرتشدد مظاہروں کی حمایت نہیں کرے گی۔ 

داؤ پر کیا ہے؟

امریکا سمیت عالمی برادری نوے کی دہائی سے اوسلو معاہدے کے تحت خطے میں دو ریاستیوں کے قیام کے لیے کوشاں رہی ہے۔ لیکن دنیا کی نظر میں نیتن یاہو کا یہ اقدام فلسطینیوں کا اپنی علیحدہ ریاست کا دیرینہ خواب چکنا چور کرنے کے مترادف ہے۔

نیتن یاہو اور ان کے حمایتوں کے نزدیک غرب اردن کا علاقہ یہودی عقیدے کے اعتبار سے اسرائیل کا اٹوٹ انگ ہے اور ملک کی سکیورٹی کے لیے بھی ناگزیر ہے۔ لیکن دنیا کے نزدیک اسرائیل نے ان علاقوں پر سن سڑسٹھ کی جنگ کے بعد سے قبضہ کر رکھا ہے۔

پچھلی چند دہائیوں میں اسرائیل ان مقبوضہ علاقوں میں ''نئے زمینی حقائق‘‘ قائم کرنے کی پالیسی پر گامزن رہا ہے، جس کے تحت وہاں مسلسل نئے گھر اور فلیٹ تعمیر کر کے باہر سے یہودی خاندانوں کو لا لا کر بسایا جاتا رہا ہے۔ عالمی برادری کی نظر میں یہ تعمیرات غیر قانونی ہیں۔ اس کے باوجود آج غرب اردن کی ان شاہکار بستیوں میں کوئی پانچ لاکھ کے قریب اسرائیلی یہودی بستے ہیں۔

نیتن یاہو کا خیال ہے کہ وہ طاقت کے بل پر 'گریٹر اسرائیل‘ کے خواب کو عملی جامہ پہنانے کے لیے تیار ہیں۔ لیکن دنیا کی نظر میں ان کا یہ عمل خطے کو تباہی اور جنگ کی طرف دھکیل رہا ہے۔