1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اسرائیل کا حزب اللہ کے خلاف جنگ بندی سے انکار

25 جولائی 2006

امریکی وزیر خارجہ کنڈولیزا رائس نے آج کی ملاقات میں اسرائیل - حزب اللہ تنازعہ کے ایک مستقل حل کی بات تو کی ہے لیکن ایسا کوئی عندیہ نہیں دیا جس سے یہ ظاہر ہوتا ہو کہ وہ حزب اللہ کے خلاف اسرائیل کی موجودہ فوجی کاروائی کو روک دینے کے حق میں ہیں یا یہ کہ انہوں نے اسرائیل پر فوجی جنگ بندی کے لئے زور دیا ہو۔

https://p.dw.com/p/DYKi
بیروت کے جنوبی حصّے پر اسرائیل کے فضائی حملے کے بعد لوگوں کا اجتماع
بیروت کے جنوبی حصّے پر اسرائیل کے فضائی حملے کے بعد لوگوں کا اجتماعتصویر: AP

لبنا ن میں بدستور شدید لڑائی جاری ہے۔حزب اللہ نے حائفہ شہر پر دس سے زائد راکٹ فائر کئے ہیں جس سے ایک 15 سالہ بچی کے ہلاک اور چار اسرائیلی شہریوں کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں جبکہ اسرائیلی فوج اسرائیلی سرحد سے چار کلومیٹر کے فاصلے پر واقع شہر بنت جبیل میں داخل ہو گئی ہے اور اس اہم شہر پر قبضہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس شہر کو حزب اللہ کا مرکز سمجھا جاتا ہے ۔

دوسری طرف امریکی وزیر خارجہ کنڈولیزارائس نے آج اسرائیلی وزیراعظم سے ملاقات میں کہا ہے کہ اب ایک نئے مشرق وسطی کے قیام کا وقت آگیا ہے۔اس ملاقات کے آغاز میں اسرائیلی وزیر اعظم ایہود اولمرٹ نے واضح کیا کہ حزب اللہ کے خلاف مہم میں کوئی نرمی نہیں برتی جائے گی اورفی الحال فائر بندی کا کوئی امکان نہیں۔

توجہ طلب بات یہ ہے کہ امریکی وزیر خارجہ کنڈولیزا رائس نے آج کی ملاقات میں اسرائیل - حزب اللہ تنازعہ کے ایک مستقل حل کی بات تو کی ہے لیکن ایسا کوئی عندیہ نہیں دیا جس سے یہ ظاہر ہوتا ہو کہ وہ حزب اللہ کے خلاف اسرائیل کی موجودہ فوجی کاروائی کو روک دینے کے حق میں ہیں یا یہ کہ انہوں نے اسرائیل پر فوجی جنگ بندی کے لئے زور دیا ہو۔

ماہرین کا خیال ہے کہ گویا انہوں نے اسرائیل کو یہ پیغام پہنچایا ہے کہ امریکہ اسرائیل کو حزب اللہ کے خلاف فوجی کاروائی جاری رکھنے کے لئے مزید وقت دینے کے لئے تیار ہے۔12 جولائی کو حزب اللہ کی طرف سے دو اسرائیلی فوجیوں کو اغوا کرنے کے بعد شروع ہونے والی اس جنگ میں اب تک 380 لبنانی اور 40 سے زائداسرائیلی ہلاک ہو چکے ہیں۔14 روز سے جاری اس جنگ میں لبنانی عوام کی ایک کثیر تعداد خاص کر جنوبی علاقوں اور بیروت کے بعض حصوں میں رہنے والے، اسرائیل کے فضائی اور زمینی حملوں کے خوف سے نقل مکانی کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔

اس جنگ کی وجہ سے آوارہ وطنی پر مجبور ہونے والوں کی تعداد میں روز افزوں اضافہ ، عالمی سطح پر گہری تشویش کا باعث بنتا جا رہا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ لبنان کسی وقت بھی ایک انسانی المیے سے دوچار ہوسکتا ہے۔ اسی صورتحال کو دیکھتے ہوئے اقوام متحدہ نے لبنانی عوام کی امداد کے لئے 150 ملین کے امدادی پیکیج کی اپیل کی ہے جبکہ امریکہ نے 30 ملین ڈالر کے امدادی پیکیج کا اعلان کیا ہے۔ اُدھر سعودی عرب نے بھی لبنان کی تعمیر نو کے لئے 1.5 ، ارب ڈالر کی امداد کا اعلان کیا ہے۔

سعودی عرب کے بادشاہ عبداللہ نے اسرائیل کے خلاف سخت لب لہجہ اختیار کرتے ہوئے کہا ہے کہ لبنان پر اسرائیل کی فوجی جارحیت ، مشرق وسطی میں جنگ کی آگ کے شعلے بھڑکا دے گی۔انہوں نے کہا اگر اسرائیلی حملے کی وجہ سے امن کا راستہ ناکام ہو گیا تو جنگ کے علاوہ کوئی راستہ باقی نہیں بچے گا اور پھر حالات کیا رخ اختیار کریں گے اس بارے میں کوئی بھی کچھ نہیں کہہ سکے گا۔

دوسری طرف مصر کے صدر حسنی مبارک نے بھی لبنان میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر جنگ فوری طور پر بند نہ ہوئی تو مشرق وسطی کا علاقہ نہایت خطرناک صورتحال سے دوچار ہو جائے گا۔بہرحال اس وقت جہاں لبنان میں شدید لڑائی جاری ہے اور اسرائیل نے فوری جنگ بندی سے انکار کر دیا ہے وہاں عالمی سطح پر علاقے میںقیام امن کی کوششیں شروع ہو گئی ہیں۔

کل اٹلی کے شہر روم میں لبنا ن کی صورتحال پر ہی ایک بین الاقوامی کانفرنس شروع ہو رہی ہے جس کا مقصد لبنان میں فوری طور پر جنگ بند کرانا ہو گا۔ اس کانفرنس میں اقوام متحدہ ، یورپی یونین اور عالمی بینک کے نمائندوں کے ساتھ ساتھ بہت سے عرب اور مغربی ممالک کے نمائندے بھی شریک ہو رہے ہیں۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا یہ کانفرنس اسرائیل کو جنگ بندی پر مجبور کر سکے گی جبکہ بظاہر اسرائیل کا خیال ہے کہ حزب اللہ کی طاقت کو ختم کرنے کے لئے اس سے بہتر موقع فراہم نہیں ہو سکتا۔