1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اسرائیل کی تازہ بمباری میں درجنوں فلسطینی ہلاک

16 مئی 2021

گزشتہ ایک ہفتے کے دوران اسرائیل کی جانب سے سب سے زیادہ خون ریز بمباری آج اتوار کو دیکھنے میں آئی۔ اسرائیلی بمباری کے نتیجے  میں 26  فلسطینی ہلاک ہو گئے۔ حماس کے ایک سینیئر رہنما کے گھر کو بھی مسمار کر دیا گیا۔

https://p.dw.com/p/3tSlg
تصویر: Mahmud Hams/AFP

اسرائیلی فوج کے مطابق انہوں نے اتوار کی شب حماس کے ایک ٹاپ لیڈر یحییٰ السنوار کے گھر کو نشانہ بنایا ۔ حماس کے اس لیڈر کا گھر غزہ کے جنوبی علاقے خان یونس میں واقع ہے۔ اطلاعات کے مطابق اس حملے میں بھی کم از کم دس عام شہری ہلاک ہو گئے ہیں، جن میں زیادہ تر بچے شامل ہیں۔حماس کے زیر کنٹرول غزہ میں  حالیہ تنازعہ کے نتیجے میں ہلاکتوں کی تعداد 174 ہو گئی ہے۔ ان ہلاکتوں میں 47 بچے اور 23 خواتین شامل ہیں۔

اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ انہوں نے حماس کے سیاسی ونگ کے سربراہ یحییٰ السنوار کے گھر پر بمباری اس لیے کی  کیوں کہ یہ عمارت حماس کے ’’فوجی‘‘ انفراسٹرکچر کا حصہ تھی۔ اسرائیلی فوج کی جانب اس عمارت کی مسمار کیے جانے کی ویڈیو جاری کی گئی ہے تاہم ان کی جانب سے ہلاکتوں کی تعداد نہیں بتائی گئی۔ اطلاعات کے مطابق یحییٰ السنوار  کے بھائی جو حماس کے اہم رکن ہیں، ان کے گھر پر بھی بمباری کی گئی تھی۔ اسرائیل کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہفتے کو انہوں نے حماس کے ایک اور رہنما کے گھر کو بھی نشانہ بنایا تھا۔

اس دوران حماس کی جانب سے اسرائیل پر راکٹ داغے جانے کا سلسلہ جاری رہا۔  حماس نے یہ تسلیم کیا ہے کہ اس کے اب تک بیس جنگجو ہلاک ہو چکے ہیں۔

تین عمارتوں کو مسمار کر دیا گیا

غزہ کی وزارت صحت کی جانب سے کہا گیا ہے کہ غزہ شہر کے مرکز میں تین مختلف عمارتوں پر اسرائیلی بمباری کے باعث 26 افراد ہلاک ہو گئے ہیں جبکہ اس حملے میں پچاس افراد زخمی ہوئے ہیں۔ ہلاک افراد میں دس خواتین اور آٹھ بچے شامل ہیں۔  غزہ شہر پر اسرائیل کی جانب سے کیے جانے والے ان حملوں کو اس ہفتے کے سب سے زیادہ خون ریز حملے قرار دیا جا رہا ہے۔

او آئی سی کا اجلاس

57 مسلم ممالک کی تنظیم 'او آئی اسی' کی جانب سے اسرائیل اور فلسطین کے اس تنازعہ پر اتوار کو ایک ہنگامی اجلاس طلب کیا گیا۔ مشرق وسطیٰ کے مسلم ممالک کی جانب سے اس تنازعہ سے متعلق یہ پہلا اہم قدم ہے۔ عرب لیگ اور او آئی جیسی تنظیموں کا ماننا ہے کہ فلسطین کو ایک علیحدہ ریاست بنانے کا حق ہے لیکن حالیہ کچھ عرصے میں اسرائیل کی جانب سے کئی اہم مسلم ممالک کے ساتھ روابط گہرے ہوئے ہیں اور متحدہ عرب امارات اور بحرین کی جانب سے اسرائیل کے وجود کو باقائدہ تسلیم بھی کیا گیا ہے۔ نیوز ایجنسی اے پی کے مطابق سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور بحرین فلسطینیوں کی ایک علیحدہ ریاست کے مطالبے کی حمایت تو کرتے ہیں لیکن ان ممالک میں اسرائیل اور فلسطین کے اس حالیہ تنازعہ کو سرکاری میڈیا اس تفصیل کے ساتھ نشر نہیں کر رہا جیسے کہ دیگر مسلم ممالک میں کیا جا رہا ہے۔

اس اجلاس کے دوارن فلسطین کے وزیر خارجہ ریاض المالکی کی جانب سے اسرائیلی بمباری کو ''بزدلانہ حملے‘‘ قرار دیا گیا۔ ترکی کے وزیر خارجہ مولود چاوش اولو نے کہا،'' اسرائیل تنہا مغربی یروشلم، غزہ اور مغربی پٹی میں  کشیدگی کا ذمہ دار ہے۔‘‘

اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی جانب سے کہا گیا ہے کہ اس تنازعہ پر اتوار کی شب ایک اجلاس میں بات چیت کی جائے گی۔  اسی حوالے سے یورپی یونین کے وزرائے خارجہ کا ایک ہنگامی اجلاس منگل کے روز طلب کر لیا گیا ہے۔ یورپی یونین کے فارن پالیسی چیف جوزف بوریل کا کہنا تھا کہ فلسطینیوں اور اسرائیل کے مابین بڑھتی ہوئی لڑائی اور ناقابل قبول عام شہریوں کی ہلاکتوں کی وجہ سے یہ ہنگامی ویڈیو اجلاس طلب کیا گیا ہے۔ یورپی یونین کے مطابق وہ اس لڑائی کے جلد از جلد خاتمے کی خواہاں ہے۔

حماس اور اسرائیل کے مابین گزشتہ ایک ہفتے سے پرتشدد لڑائی جاری ہے۔ حماس کے جنگجو اسرائیل کی جانب تقریبا دو ہزار سے زائد راکٹ فائر کر چکے ہیں، جن میں سے زیادہ تر کو اسرائیلی دفاعی نظام نے راستے میں ہی تباہ کر دیا تھا۔ دوسری جانب اسرائیل غزہ میں سینکڑوں جان لیوا حملے کر چکا ہے۔ اس خونی تنازعے کو ختم کرنے کی بین الاقوامی کوششیں ابھی تک ناکام ثابت ہوئی ہیں۔

حالیہ تنازعہ شروع کیسے ہوا؟

ایک ماہ قبل اسرائیلی پولیس کی جانب سے یروشلم میں مسجد الاقصیٰ میں ایک کارروائی تنازعہ کی وجہ بنی۔ مسجد الاقصیٰ یروشلم کی ایک پہاڑی پر قائم ہے اور مسلمانوں اور یہودیوں دونوں کے لیے ایک انتہائی مقدس مقام ہے۔ مشرقی یروشلم میں بھی تناؤ اس وقت بڑھا جب اس ماہ کے آغاز میں فلسطینیوں کی جانب سے ان اسرائیلیوں کے خلاف احتجاج کیا گیا جنہوں نے کچھ فلسطینی خاندانوں کو زبردستی گھروں سے نکال دیا تھا۔ گزشتہ پیر کو حماس کی جانب سے یروشلم میں راکٹ داغے گئے اور یہ پیغام دیا گیا کہ وہ فلسطینی مظاہرین کے ساتھ ہے۔ اسرائیلی نے جواب کارروائی کرتے ہوئے فضائی بمباری کا آغاز کر دیا۔

اب حالیہ پر تشدد کارروائیوں کے باعث خدشہ ہے کہ غزہ میں تیسرے انتفادہ یا فلسطینیوں کی اسرائیل کے خلاف مزاحمتی تحریک کا آغاز ہو سکتا ہے۔ پہلی تحریک سن 1987 سے 1993 تک جاری رہی جبکہ دوسری مزاحمتی تحریک یا انتفادہ کا آغاز  سن 2000 میں ہوا اور یہ قریب پانچ سال تک جاری رہی۔

ب ج، ا ا  (اے پی، نیوز ایجنیساں)

اسرائیلی فلسطینی تنازعے کی وجہ سے اسرائیل کے خلیجی ساتھی مشکل میں

حماس کے بارے میں آپ کو کیا جاننا چاہیے؟