1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اسرائیل کی طرف سے عرب آبادی کے لیے کئی بلین کا منصوبہ

افسر اعوان31 دسمبر 2015

اسرائیلی حکومت نے ملک کی عرب آبادی کی معاشی صورتحال بہتر بنانے کے لیے کئی ملین ڈالرز مالیت کے منصوبے کی منظوری دے دی ہے۔ یہ رقم کس طرح خرچ کی جائے گی، اس بارے میں تفصیلات فوری طور پر دستیاب نہیں ہوئیں۔

https://p.dw.com/p/1HWU6
تصویر: Reuters/R. Zvulun

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق تاہم اسرائیلی وزیراعظم کے دفتر سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ اس پروگرام میں تعلیم، ٹرانسپورٹیشن، روزگار، بنیادی ڈھانچہ، ثقافت اور کھیلوں کو شامل کیا جائے گا۔ اس بیان میں نیتن یاہو کی طرف سے کہا گیا ہے، ’’اس منصوبے میں یقینی بنایا گیا ہے کہ اسرائیل میں رہنے والی اقلیتیں۔۔۔ مسلمان، مسیحی، دوزی اور سرکیشیائی۔۔۔ اپنے مختلف سیکٹرز میں ترقی کے لیے مناسب بجٹ حاصل کریں۔‘‘

اسرائیلی حکومت کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اے ایف پی کو بتایا کہ پانچ برسوں پر محیط یہ منصوبہ 10 سے 15 بلین شیکل مالیت کا ہو گا۔ یہ رقم 2.56 سے 3.84 بلین امریکی ڈالرز کے مساوی بنتی ہے۔

اسرائیلی پارلیمنٹ میں عرب جماعتوں کی مشترکہ فہرست کی سربراہی کرنے والے ایمن اودے نے محتاط انداز میں اس منصوبے کا خیر مقدم کیا ہے جو ان کے کہنے کے مطابق ’طویل عوامی جدوجہد کا نتیجہ ہے اور جسے ابھی تکمیل کو پہنچنا ہے‘۔ ان کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے، ’’یہ منصوبہ مشترکہ فہرست اور مقامی انتظامیہ کے عرب سربراہوں کے ساتھ قریبی تعاون کے ذریعے تیار کیا گیا ہے۔‘‘ اودے کے مطابق یہ منصوبہ اسرائیل کے عرب شہریوں کی معاشی اور ثقافتی صورتحال بہتر کرنے کا سبب بنے گا۔

اسرائیل میں آباد عربوں کی تعداد کُل آبادی کا 17 فیصد ہے
اسرائیل میں آباد عربوں کی تعداد کُل آبادی کا 17 فیصد ہے

اسرائیلی وزارت خزانہ میں بجٹ کے سربراہ امیر لیوی Amir Levy کے مطابق اس منصوبے میں ’’حکومت کی طرف سے رقوم کی تقسیم کے طریقہ کار میں بنیادی درستگی‘‘ کی گئی ہے جس سے ’’عرب سیکٹر کی معاشی امکانات کو سمجھنے میں مدد ملے گی‘‘۔

نیتن یاہو کے مطابق یہ منصوبہ اقلیتی سیکٹر میں قوانین کی عملداری کو بھی مضبوط بنائے گا جس میں غیر قانونی تعمیرات پر خاص توجہ دی جائے گی۔

اسرائیلی عرب وہ فلسطینی اور ان کی اولادیں ہیں جو 1948ء میں اسرائیل کے وجود میں آنے کے بعد بھی وہیں رہ گئے تھے اور ان کی تعداد ملک کی کُل آبادی کا 17 فیصد بنتی ہے۔ ان کی طرف سے عام طور پر مختلف شعبہ جات میں امتیازی سلوک کی شکایت کی جاتی ہے جن میں تعلیم، انفراسٹرکچر اور تعمیراتی پرمٹوں جیسے معاملات شامل ہیں۔