1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اسرائیل کے قیام کی 60 ویں سالگرہ

8 مئی 2008

اسرائیل کے قیام کی صورت میں نہ صرف نازی سوشلسٹوں کے قتلِ عام سے بچ جانیوالے لاکھوں انسانوں کو ایک نیا وطن میسر آیا بلکہ دنیا کے نقشے پر ایک جدید، ترقی یافتہ اور جمہوری ملک بھی وجود میں آیا۔ Peter Philipp کا تبصرہ

https://p.dw.com/p/Dwpx
اسرائیل کی آزادی کی تقریبات کے موقع پر ایک فلسطینی نوجوان خوشی کے ساتھ رقص کرتے ہوئےتصویر: AP

اسرائیل کے ساٹھ سال۔ اسرائیلی اور فلسطینی چند گھنٹوں یا دِنوں کے لئے سوچ میں ڈوب کر یاد کرتے ہیں 1948ء کو، جب یہ ساری کہانی شروع ہوئی تھی۔

پھر ایک بار ایک ایسی سالگرہ منائی جا رہی ہے، جو ایک فریق کے لئے جشن کا اور اپنی طاقت کے مظاہرے کا موقع فراہم کرتی ہے تو دوسرے کے لئے دکھ، سوگ اور کمتری کے شدید احساس کی نمائندگی کرتی ہے۔ ایسےمیں یہ بات اور بھی حیران کن ہے کہ اسرائیلی یہودی فریق کے ہاں بھی اب سوچ بچار کا عمل شروع ہو گیا ہے۔ ورنہ اسرائیلی اخبار ہارَیٹس اِس ساٹھ وِیں سالگرہ پر یہ سُرخی نہ لگاتا کہ ساٹھ سال نقبہ، ساٹھ سال کچھ بھی نہیں۔

Israel Feier zum 60. Unabhängigkeitstag Flagge und Baby
روس سے نقل مکانی کر کے اسرائیل میں آباد ہونے والے یہودیوں کا ایک بچہ آزادی کی ایک تقریب میں اسرائیلی پرچم کے ساتھتصویر: AP

فلسطینی باشندے اسرائیل کے قیام کے دِن کونقبہ یعنی تباہی کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ یقیناً اِسرائیلی اخبار کے مضمون نگار اسرائیل کے قیام کو تباہی کے مترادِف نہیں سمجھتے لیکن قیام کے بعد سے اب تک کے ساٹھ برسوں میں پیش آنے والے حالات کو ضرور ایسا سمجھتے ہیں۔ مضمون نگار کے نزدیک وہ بھی تباہی ہے، جو نہیں ہو سکا، یعنی کوئی امن قائم نہیں ہو سکا ہے۔

دَس سال پہلے اسرائیل کے قیام کی پچاس وِیں سالگرہ کے موقع پر تو پھر بھی کچھ اُمید تھی کہ شاید اوسلو معاہدے کے نتیجے میں بات کچھ آگے بڑھے گی۔ لیکن عرصہ ہوا، یہ اُمید دم توڑ چکی ہے۔

جہاں تک امریکی صدر جورج ڈبلیو بُش کی اپنے دَورِ صدارت کے اندر اندر مشرقِ وُسطےٰ میں قیامِ امن کی کوششوں کا تعلق ہے، کم ہی لوگوں کا خیال ہے کہ وہ کامیابی سے ہمکنار ہوں گی۔ اِس منفی نقطہء نظر کے حامل اسرائیلیوں کی تعداد 80 فیصد، جبکہ فلسطینیوں کی اِس سے بھی زیادہ ہے۔

یہ مایوسی دیگر شعبوں میں اسرائیل کی شاندار کامیابی کو پس منظر میں دھکیل دیتی ہے۔ جو لاکھوں یہودی نازی سوشلسٹوں کے ہاتھوں قتلِ عام کا شکار ہونے سے بچ گئے، اُنہیں نہ صرف ایک نیا وطن ملا بلکہ ایک جدید،ترقی یافتہ اور جمہوری ریاست بھی وجود میں آئی، جونہ صرف پورے خطے میں سائنس اور طب کے شعبوں میں آگے ہے بلکہ جس کی معیشت بھی بے حد مستحکم ہے اور جس کے پاس علاقے کی طاقتور ترین فوج بھی ہے۔

Palästinensisches Flüchtlingslager Jalazoun nahe Ramallah im Westjordanland
لاکھوں فلسطینی باشندے عشروں سے اِس طرح کے کیمپوں میں زندگی گذار رہے ہیں۔تصویر: AP

لیکن جب امن ہی نہ ہو تو پھر اِن ساری چیزوں کا کیا فائدہ! اگر ایک طر ف اسرائیلیوں نے امن کے بے شمار مواقع گنوائے ہیں تو دوسری طرف یہی بات فلسطینیوں اور عرب دُنیا کے بارے میں بھی کہی جا سکتی ہے۔ اسرائیل نے بھی سفارتکاری سے زیادہ اپنی فوجی طاقت پر بھروسہ کیا ہے۔

چھ روزہ جنگ کے بعد عرب دُنیا کے تین انکار ایسے ہیں، جنہیں اسرائیل میں فراموش نہیں کیا گیا۔ اسرائیل کے ساتھ مذاکرات سے انکار، اسرائیل کو تسلیم کرنے سے انکار اور اسرائیل کے ساتھ امن سے انکار۔ لیکن دیکھا جائے تو کئی انکار اسرائیل کے حصے میں بھی آتے ہیں۔

ایک وقت تھا کہ اسرائیل فلسطینیوں کے ساتھ بطور ایک واحد قوم کے مذاکرات کرنے یا ایک آزاد فلسطینی ریاست کے تصور کو تسلیم کرنے سے انکار کرتا رہا۔ آج کل اسرائیل دیگر کئی اعتراضات کے ساتھ ساتھ فلسطینی مہاجرین کو واپسی کا حق دینے اور یروشلم کے مسئلے پر مفاہمت سے انکار کر رہا ہے۔ دونوں فریقوں کے لئے ایک اور تباہی یہ ہے کہ دونوں ہی تاریخ کا پہیہ پیچھے کی جانب دھکیلنا چاہتے ہیں۔