1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اسلامی دنیا سے تعلقات، نئی امریکی کوششیں

27 اپریل 2010

امریکی صدر باراک اوباما نے پیر کے روز اسلامی دنیا سے تجارت اور سماجی تعلقات میں بہتری سے متعلق نئی کاوشوں کا آغاز کیا ہے۔ تاہم مبصرین کا خیال ہے کہ اس نئی مہم کی کامیاب کا انحصار ’بڑے مسائل‘ کے حل کی کوششوں پر ہے۔

https://p.dw.com/p/N7Ef
تصویر: ap

پیر کے روز سے امریکی میزبانی میں واشنگٹن میں شروع ہونے والی ایک کانفرنس میں دنیا کے 50 ممالک کے تقریبا 250 اہم کاروباری افراد شریک ہیں۔ ان افراد میں سے زیادہ تر کا تعلق گنجان آباد مسلم ممالک سے تھا۔ اس اجلاس کا مقصد گزشتہ برس جون میں قاہرہ یونیورسٹی میں صدر اوباما کے اسلامی دنیا سے خطاب میں پیش کئے گئے نکات کو عملی جامہ پہنانا ہے۔ صدر اوباما کانفرنس کے پہلے روز کے اختتام پر اجلاس سے خطاب کر رہے ہیں۔

امریکی وزیرمعیشت ٹوتھی گائٹنر نے اس اجلاس کے افتتاح کے موقع پر اپنے ابتدائی کلمات میں کہا : ’’آپ لوگوں نے انفرادی سطح پر سخت محنت کے ذریعے تمام اسلامی دنیا کو ثمرات سے نوازا ہے۔‘‘

Symbolbild Ein 1 Jahr Präsidentschaftswahlsieg Obama
گزشتہ برس قاہرہ میں اسلامی دنیا سے خطاب میں صدر اوباما نے تعلقات کے ایک نئے باب کے آغاز کا اعلان کیا تھاتصویر: WhiteHouse

امریکی صدر کے قومی سلامتی کے نائب مشیر بین روڈز کے مطابق صدر اوباما کی اس اجلاس میں شرکت اس امر کی وضاحت ہے کہ ’’امریکہ دنیا بھر میں مسلمان اکثریت کے معاشروں کو کتنی اہمیت دیتا ہے‘‘۔

مبصرین کا خیال ہے کہ اس اجلاس میں صدر اوباما کی شرکت کا بنیادی مقصد گزشتہ برس قاہرہ یونیورسٹی میں مسلم دنیا سے ان کے خطاب کے مندرجات کو عملی شکل دینے کی کوشش ہے۔ تاہم مبصرین کا یہ بھی خیال ہے کہ اس کوشش میں ان کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹیں مسلم دنیا کی نگاہ میں بڑے اور اہم مسائل کے حل کے لئے امریکی کاوشیں ہوں گی۔ امریکی میڈیا پر نشر ہونے والی رپورٹوں میں مبصرین کا کہنا ہے کہ اس اجلاس میں شریک مسلم مندوبین امریکہ کی جانب سے مسلم دنیا کے ساتھ بہتر تعلقات کے قیام کے اقدامات کو فلسطینی اسرائیلی امن مذاکرات، ایرانی جوہری پروگرام اور عراق اور افغانستان میں جاری جنگ کی نگاہ سے پرکھیں گے۔ مبصرین کا خیال ہے کہ اس تناظر میں دیکھنے پر صدر اوباما کے قاہرہ میں کئے گئے خطاب کے مندرجات کو حقیقت بنانے کے راستے میں مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔

سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کے قومی سلامتی کے نائب مشیر اور سینٹر فار سٹریٹیجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز سے وابستہ تجزیہ کار Juan Zarate کے مطابق : ’’کچھ حوالوں سے قاہرہ خطاب کی عملی شکل سامنے آتی ہوئی دکھائی نہیں دیتی، جب تک کہ آپ چند اہم سیاسی و جغرافیائی مسائل کا حل نہیں نکال لیتے۔‘‘

رپورٹ : عاطف توقیر

ادارت : عابد حسین