1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اسٹیبلشمنٹ مخالف بھٹو کا دیس، اب کوئی اینٹی اسٹیبلشمنٹ نہیں

عبدالستار، اسلام آباد
4 اپریل 2017

آج پاکستان کے پہلے منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹوکی برسی منائی جا رہی ہے، جنہوں نے آئین کی شکل میں عوام کو بنیادی آزادیوں کا تحفہ دیا اور طاقتور اسٹیبلشمنٹ کو چیلنج کیا۔ آج کوئی ملکی جماعت اینٹی اسٹیبلشمنٹ نہیں ہے۔

https://p.dw.com/p/2afkE
Pakistan Ministerpräsident Zulfikar Ali Bhutto
تصویر: STF/AFP/GettyImages

تجزیہ نگاروں کے خیال میں آج کل پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ سیاست کے مرکزی دھارے میں کوئی اسٹیبلشمنٹ مخالف پارٹی نظر نہیں آتی۔ معروف تجزیہ نگار اور پنجاب یونیورسٹی کے شعبہٴ سماجیات سے وابستہ عمار جان کہتے ہیں کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ مرکزی دھارے میں کوئی اسٹیبلشمنٹ مخالف پارٹی نہ رہی ہو۔

ڈوئچے ویلے سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا:’’اگر قیام پاکستان کے وقت سے ہی آپ دیکھیں تو کمیونسٹ پارٹی کی اسٹیبلشمنٹ مخالف لائن تھی۔ اس کے علاوہ آزاد پاکستان پارٹی، عوامی لیگ، پی پی پی، نیشنل عوامی پارٹی اور ن لیگ۔ یہ ساری جماعتیں تاریخی طور پر کبھی نہ کبھی اسٹیبلشمنٹ مخالف رہی ہیں لیکن یہ پہلا موقع ہے کہ آپ کو اب کوئی اسٹیبلشمنٹ مخالف پارٹی نظر نہیں آتی، کم از کم مرکزی سیاسی دھارے میں تو کوئی نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں نے ان حدود و قیود کو تسلیم کر لیا ہے، جو انہیں اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے بتائی گئی ہیں۔ خارجہ پالیسی، افغانستان اور مذہبی معاملات سمیت کئی ایسے امور ہیں، جن میں سیاست دانوں کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ جب بھی سیاست دان ان حدود و قیود کو توڑنے کی کوشش کرتے ہیں تو اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے سخت ردعمل آتا ہے۔ ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ ملک میں اب ایسی کوئی نظریاتی سیاسی جماعت نہیں رہی، جو عوام کے بنیادی مسائل پر بات چیت کرے۔ اب سیاست دان بھی ٹھیکوں اور حصے داری کے چکر میں ہیں۔ ملک کی تین بڑی سیاسی جماعتیں حکومت کا حصہ ہیں۔ پی پی پی سندھ، ن لیگ مرکز اور پنجاب میں اور پی ٹی آئی کے پی میں۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد سیاست دانوں کو ان کا حصہ مل رہا ہے۔ تو انہیں کیا پڑی ہے کہ وہ افغانستان پر بات کریں یا خارجہ امور کو اپنے ہاتھ میں لینے کا سوچیں۔‘‘

Bildgalerie Pakistan Benazir Bhutto mit Familie 1978
ذوالفقار علی بھٹو اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ، جولائی 1978ء کی اس تصویر میں اوپر دائیں جانب سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو نظر آ رہی ہیںتصویر: AP

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا:’’یہ عجیب بات ہے کہ پاکستان میں آج جن سوالات کو اٹھانا سیاسی طور پر غلط سمجھا جاتا ہے، انہیں این جی اوز اٹھا رہی ہیں۔ ایک عجیب خوف کی وجہ سے لوگوں میں سیلف سینسر شپ کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ پہلے جب ریاست لوگوں کے خلاف طاقت استعمال کرتی تھی، تو اس کی ذمہ داری بھی قبول کرتی تھی۔ جیسا کہ فاطمہ جناح کی ریلیوں کو ناکام بنانے کی کوشش کی گئی۔ جنرل ضیاء کے دور میں ریاست کوڑے لگاتی تھی اور ایسا علی اعلان کرتی تھی۔ اب تو مسئلہ یہ ہے کہ کچھ بولنے پر آپ غائب بھی ہو سکتے ہیں اور کوئی یہ بتاتا بھی نہیں ہے کہ کس نے اٹھایا ہے۔ تو ایسی صورت میں آپ کو اگر مار کے بھی پھینک دیا جاتا ہے تو مسئلہ گمنامی میں ہی چلا جاتا ہے۔ اس عمل نے خوف کے عنصر کو مزید مضبوط کر دیا ہے اور سلیف سینسر شپ کے رجحان کو بڑھایا ہے۔‘‘

معروف دانشور ڈاکڑ مہدی حسن کے مطابق ملک میں اچھے سیاست دانوں کا قحط ہے۔ اس مسئلے پر اپنے تاثرات دیتے ہوئے انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا:’’ہمارا معاشرہ مجموعی طور پر تنزلی کی طرف جا رہا ہے۔ یہ تنزلی صرف سیاست میں ہی نہیں ہے۔ ملک میں تین سو تینتیس سیاسی جماعتیں اور ساٹھ کے قریب مذہبی تنظیمیں ہیں لیکن کسی کے پاس عوام کی فلاح یا ان کے مسائل کے حل کے لیے کوئی پرواگرام نہیں ہے۔ مثال کے طور پر کیا کسی جماعت کا کوئی پروگرام ہے کہ مذہبی انتہا پسندی سے کس طرح نمٹا جائے۔ اب سیاسی جماعتوں میں اس بات کا مقابلہ نہیں ہوتا کہ کون عوام کی زیادہ خدمت کرتا ہے بلکہ اب تو ہر سیاسی جماعت اسٹیبلشمنٹ کو ہی زیادہ سے زیادہ خوش کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ ایسا پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ہو رہا ہے کہ نہ ملک میں کوئی قد آور سیاسی شخصیت ہے اور نہ ہی سیاست دانوں میں اتنی جرأت کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کو چیلنج کر سکیں۔‘‘

لیکن معروف سماجی کارکن اسد بٹ کے خیال میں یہ مناسب نہیں کہ سار ا ملبہ سیاست دانوں پر ڈال دیا جائے۔ اس موضوع پر اپنی رائے دیتے ہوئے انہوں نے ڈوئچے ویلے کو بتایا:’’میں نے اپنی پوری سیاسی زندگی میں کبھی نہیں دیکھا کہ ملک میں کوئی اسٹیبلشمنٹ مخالف سیاسی جماعت مرکزی دھارے میں نہ ہو۔ اس طرح کی چھوٹی جماعتیں اب بھی ہیں لیکن مرکزی دھارے میں اس وقت کوئی اسٹیبلشمنٹ مخالف پارٹی نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ طاقتور اداروں کے خلاف بولنے پر لوگوں کو اٹھایا جا رہا ہے۔ ان اداروں نے سیاست دانوں کے خلاف ایک نفسیاتی جنگ چھیڑی ہوئی ہے۔ سیاست کو ایک گالی بنا دیا گیا ہے۔ آج سیاست دانوں کی کرپشن پر تو بات ہو رہی ہے لیکن جو ادارہ ملک میں سب سے زیادہ بجٹ لیتا ہے، کیا کبھی اس پر بحث ہوئی۔ کیا کبھی اس بجٹ کا آڈٹ ہوا۔ سیاست میں کرپشن کا سہرا بھی اسٹیبلشمنٹ کے سر ہے۔ مجھے بھٹو، مودودی اور ماضی کے دوسرے رہنماوں سے کئی اختلافات ہو سکتے ہیں لیکن بتائیں مجھے ستّر کی دہائی میں اس ملک میں کتنے کرپٹ سیاست دان تھے۔ جنرل ضیاء نے ملک میں کرپٹ سیاست دان متعاراف کرائے اور بعد میں ان لوگوں نے آئی جی آئی بنوا کر سیاست میں کرپشن کا دروازہ کھولا ہے۔‘‘

Pakistan Muhammad Zia ul-Haq
’’جنرل ضیاء الحق کے دور میں ریاست کوڑے لگاتی تھی اور ایسا علی الاعلان کرتی تھی‘‘تصویر: PHILIPPE BOUCHON/AFP/Getty Images

اسد بٹ کا کہنا تھا کہ میڈیا نے اسٹیبلشمنٹ کو مضبوط کرنے میں بڑا اہم کردار ادا کیا ہے:’’یہ اینکرز سیاست دانوں سے تو بہت گلے پھاڑ پھاڑ کر سوال کرتے ہیں، ذرا کبھی طاقتور اداروں کے لوگوں سے تو ان کی کرپشن کے بارے میں پوچھیں۔ ان سے ذرا سوال کریں، فوج کے کاروبار کے بارے میں۔ جب ان پر بات آتی ہے تو سیلف سینسرشپ نافذ ہوجاتی ہے۔ اب تو اسٹیبلشمنٹ نے اپنے بھی چینلز کھول لیے ہیں، جہاں فوج پر تنقید کرنے والوں کو رُسوا کیا جاتا ہے اور ان کی بے عزتی کی جاتی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ نے سب کو خوفزدہ کر کے رکھا ہوا ہے۔ پہلے سیاست دانوں نے نوّے دن کی حراست اور فوجی عدالتوں کی مخالفت کی لیکن پھر ایک ہی اشارے پر ڈھیر ہو گئے کیونکہ ہر جگہ خوف کا عنصر موجود ہے، جس سے معاشرے میں تنقیدی سوچ ختم ہو رہی ہے اور سیلف سینسر شپ کا رجحان بڑھا رہا ہے۔‘‘