1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اشیائے خورد و نوش کی عالمی تجارت اور صحت پر اس کے اثرات

17 ستمبر 2011

دنیا بھر میں ہر برس ٹرلین ڈالرز مالیت کی اشیائے خورد و نوش کی تجارت ہوتی ہے تاہم اس میں کھانے پینے کی بہت کم ہی ایسی چیزیں ہوتی ہیں جن کو ٹیسٹ کیا جاتا ہو۔

https://p.dw.com/p/12bJA
تصویر: picture alliance/CTK

اشیائے خورد و نوش کی عالمی تجارت ایک بڑا اور پر خطر کاروبار بن چکی ہے۔ دنیا بھر میں کھانے پینے کی جن اشیاء کی تجارت کی جاتی ہے ان میں بہت کم ہی کو صحت کے معیارات کے مطابق جانچا اور پرکھا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کے عالمی ادارہ برائے صحت کے مطابق ہر برس دنیا بھر میں ایک اعشاریہ آٹھ ملین افراد اسہال کا شکار ہو کر مر جاتے ہیں، جس کی وجہ مضر صحت غذائی اشیاء یا پانی ہوتا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق ترقی پذیر ممالک میں رہنے والے افراد اس کا سب سے زیادہ شکار ہوتے ہیں۔

EHEC Labor Symbolbild
لیباٹری میں بین الاقوامی سائنسدانوں کو تربیت دی جائے گیتصویر: picture alliance/dpa

اب امریکی دارالحکومت واشنگٹن کے مضافات میں قائم جامعہ کے کیمپس میں ایک ایسا ادارہ بنایا گیا ہے جہاں غذائی اشیاء کو نہ صرف ٹیسٹ کیا جائے گا بلکہ اس حوالے سے بین الاقوامی ماہرین کو تربیت بھی دی جائے گی۔ اس ادارے کا نام ’فوڈ سیفٹی ٹریننگ لیبارٹری‘ ہے۔

لیب کی مینیجر جینی ڈی بوئس کا کہنا ہے کہ یہ اپنی نوعیت کی پہلی لیبارٹری ہے جو کہ ای کولی تک کے بیکٹیریا کا پتہ چلانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ خیال رہے کہ چند ماہ قبل یورپ میں ای کولی بیکٹیریا کے پھیلاؤ کے باعث کئی افراد کو جان سے ہاتھ دھونا پڑے تھے۔ اس واقعے کے بعد ترقی یافتہ ممالک غذائی اشیاء کی ایک ملک سے دوسرے ملک درآمد و برآمد کے وقت صحت کے معیارات پورے کرنے کے حوالے سے نئے اصول طے کر رہے ہیں۔ امریکہ کی یہ لیبارٹری اس سلسلے کی کڑی ہے۔ امریکی محققین کو امید ہے کہ یہ ادارہ اس نوعیت کے مزید اداروں کے قیام میں معاون ثابت ہوگا۔

رپورٹ: شامل شمس ⁄  خبر رساں ادارے

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں