1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اعتماد سازی کی کوشش، یمنی فریق قیدیوں کا تبادلہ کریں گے

عاطف توقیر16 دسمبر 2015

یمنی تنازعے کےفریقین نے جنیوا میں امن مذاکرات کے دوران اعتماد سازی کے لیے سینکڑوں قیدیوں کے تبادلے پر رضامندی ظاہر کر دی ہے۔ اقوام متحدہ کی زیرنگرانی ان مذاکرات سے تنازعے کے حل کے لیے پیش رفت کی امید وابستہ کی جا رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/1HO8z
Jemen Aden Konvoi Kontrolle Checkpoint
تصویر: Reuters/N.Awad

جنیوا میں جاری ان مذاکرات میں حکومت اور ایران نواز حوثی باغیوں کے وفود شریک ہیں۔ ان مذاکرات کے آغاز سے قبل ہی، یمن میں کم از کم سات روز کے لیے مکمل فائربندی کا اعلان کیا گیا تھا، جب کہ اب قیدیوں کے اس تبادلے سے فریقین کے درمیان مسئلے کے حل کے معاملے میں سنجیدگی کا اندازہ ہوتا ہے۔

صدر منصور ہادی کی حامی جنوبی مزاحمتی قوت یا ’سدرن رزسٹنس فورسز‘ کے ایک اعلیٰ عہدیدار عبدالحکیم الحسنی کا کہنا ہے کہ حوثی تحریک کے 360 ارکان کو جلد رہا کیا جا رہا ہے۔ دوسری جانب حوثی باغیوں کا کہنا ہے کہ جنوبی شہر عدن سے حراست میں لیے گئے 265 عام شہریوں اور جنگجوؤں کو رہائی دی جائے گی۔ فریقین اپنے اپنے پاس موجود قیدیوں کو قبائلی ثالثی میں آج رہا کر دیں گے۔

Jemen Kämpfe in Taiz
کئی ماہ سے جاری اس تنازعے میں چھ ہزار سے زائد افراد مارے جا چکے ہیںتصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Alseddik

دارالحکومت صنعا میں ایران نواز حوثی باغیوں کی زیرنگرانی جیل کے ایک عہدیدار نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ جنوبی یمن سے تعلق رکھنے والے قیدیوں کو رہائی کے لیے بسوں میں سوار کرا دیا گیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ قیدیوں کا یہ تبادلہ سابقہ شمالی و جنوبی یمن کی سرحد پر کیا جائے گا۔

عدن میں موجود عینی شاہدین نے حکومتی جیلوں سے حوثی قیدیوں کو بسوں میں بٹھانے کا بتایا ہے۔

دریں اثناء یمنی حکومت اور حوثی باغیوں کی جانب سے ایک دوسرے پر فائربندی کی خلاف وزری کے الزامات بھی سامنے آ رہے ہیں۔ تاہم اقوام متحدہ کے مطابق فائربندی کے اس معاہدے پر بدھ کے روز یمن کے زیادہ تر حصے میں عمل درآمد دیکھا گیا۔

یہ بات اہم ہے کہ مذاکرات کے بہتر ماحول پیدا کرنے کی غرض سے فریقین یمن میں سات روز فائربندی پر متفق ہوئے ہیں۔

اقوام متحدہ کو امید ہے کہ ان مذاکرات کے ذریعے نو ماہ سے جاری اس مسلح تنازعے کا حل ممکن ہو گا، جو اب تک چھ ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جب کہ اس تنازعے کی وجہ سے علاقائی طاقتوں کے درمیان بھی شدید کشیدگی پیدا ہو گئی ہے۔