1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اعضاء کی پیوند کاری سے متعلق بل منظور

12 نومبر 2009

ٹوقع کی جا رہی ہے کہ نئے قانون پر عملدرآمد سے گردوں اور دوسرے انسانی اعضاء کی خریدوفروخت کے مذموم کاروبار پر کچھ نہ کچھ چیک ضرور پیدا ہوگا۔

https://p.dw.com/p/KVWo
تصویر: Abdul Sabooh

قومی اسمبلی نے جمعرات کے روز انسانی اعضاء کی پیوند کاری سے متعلق جس بل کی منظوری دی ہے اس کے تحت انسانی اعضاء کی غیر قانونی تجارت اور پیوند کاری میں ملوث افراد کو دس سال قید اور دس لاکھ روپے جرمانے کی سزا بھگتنا ہوگی۔ اس بل کی منظوری سے انسانی اعضاء کی غیر قانونی خریدوفروخت روکنے سے متعلق قانون سازی کے حوالے سے انسانی حقوق کی تنظیموں کا ایک دیرینہ مطالبہ پورا ہوا ہے کیونکہ اب تک یہ قانون محض ایک آرڈیننس کی صورت میں نافذالعمل تھا جس پر عملدرآمد بھی نہ ہونے کے برابر تھا۔

نئے بل میں رضاکارانہ طور پر انسانی پیوندکاری کےلئے وفاقی سطح پر ایک اتھارٹی قائم کرنے کی منظوری بھی دی گئی ہے جبکہ اس حوالے سے عوام میں شعور بیدار کرنے کےلئے بھی مہم شروع کی جائے گی۔ سابق وزیر مملکت برائے صحت شہناز شیخ نے قومی اسمبلی سے انسانی اعضاء کی پیوندکاری کے بل کی منظوری کو ایک تاریخی قدم قرار دیا ہے'' اس بل کے محض آرڈیننس ہونے کی بات اب نہیں رہی۔ مشکل میں کوئی بھی شخص پیوند کاری کےلئے اعضاء عطیہ کرنے والے کو ساتھ لا کر یہ سہولت حاصل کر سکتا ہے۔ عوامی نمائندے اورعوام علاقہ اس چیز پر اگرکڑی نظر رکھیں تو میں نہیں سمجھتی کہ اس بل کی ماضی کی طرح بڑی سطح پر خلاف ورزی اب ممکن ہے۔‘‘

خیال رہے کہ لیبیا، کویت اور بعض یورپی ملکوں میں گردے کے امراض میں مبتلا یا ایک گردے سے محروم افراد پاکستان میں گردے کی پیوند کاری کےلئے زیادہ تر ایسے ایجنٹوں اور ڈاکٹروں کے ساتھ رابطے کرتے ہیں جو فیصل آباد، سرگودھا اور جنوبی پنجاب کے دور دراز اضلاع میں خاص طور پر اینٹوں کے بھٹوں پر کام کرنے والے انتہائی مقروض مزدوروں کو نقد ادائیگی کے جھانسے میں انہیں ایک گردہ فروخت کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ راولپنڈی ، لاہور اور فیصل آباد میں کئی ہسپتال اس کاروبار میں مصروف ہیں جس میں گردے سے محروم ہونے والے شخص کو تو محض چند سو ڈالر ملتے ہیں جبکہ اس بنیاد پر ڈاکٹر اور ایجنٹ کم از کم پندرہ ہزار ڈالر وصول کر لیتے ہیں۔

رپورٹ : امتیاز گل

ادارت: کشور مصطفی