1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتایشیا

افغانستان: غزنی اور ہرات کے بعد قندھار پر بھی طالبان کا قبضہ

13 اگست 2021

طالبان نے افغانستان کے بڑے شہر قندھار پر بھی قبضہ کر لیا ہے جو حکومت کے لیے ایک بڑا دھچکا ثابت ہو سکتا ہے۔ ادھر امریکا نے افغانستان میں تین ہزار فوجی دوبارہ بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/3yvsX
Afghanistan Taliban erobern Provinzhauptstadt nahe Kabul
تصویر: Jalil Ahmad/REUTERS

بارہ اگست جمعرات کے روز طالبان نے بڑے ڈرامائی انداز میں افغانستان کے یکے بعد دیگرے کئی شہروں پر قبضہ کر لیا اور اس طرح اب وہ ملک کے 34 میں سے 12 دارالحکومتوں پر قابض ہو چکے ہیں۔ اس میں سب سے اہم قندھار ہے جو ملک کا دوسرا سب سے بڑا شہر ہے۔

گرچہ حکومت نے قندھار پر ابھی شکست تسلیم نہیں کی ہے تاہم آزاد ذرائع سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق طالبان نے شہر کے تمام حکومتی مراکز اور عمارتوں کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔ خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹیڈ پریس نے بعض عینی شاہدین کے حوالے سے خبر دی ہے کہ طالبان قندھار کے مرکز میں موجود ہیں اور شہر کی کئی عمارتوں پر اپنا پرچم بھی لہرا دیا ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق طالبان کے ایک ترجمان نے اپنے مصدقہ ٹویٹر اکاؤنٹ پر کہا ہے، ''قندھار کو مکمل طور پر فتح کر لیا گیا ہے اور مجاہدین شہید چوک پر پہنچ چکے ہیں۔'' اے ایف پی کا کہنا ہے کہ ایک مقامی رہائشی نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ قندھار پر اب طالبان پوری طرح قابض ہو چکے ہیں۔

ایک دور میں قندھار طالبان کا گڑھ ہوا کرتا تھا جو دفاعی نکتہ نظر سے اہم ہونے کے ساتھ ساتھ کاروباری سرگرمیوں کا بھی مرکز ہے۔ قندھار میں بین الاقوامی ہوائی اڈہ ہے اور اپنی صنعتی اور کاشتکاری کی پیداوار کے لحاظ سے بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ 

 اس سے قبل جمعرات کو ہی مقامی صحافیوں اور وہاں کے باشندوں نے اس بات کی تصدیق کی تھی کہ افغانستان کا تیسرا سب سے بڑا شہر ہرات بھی طالبان کے قبضے میں جا چکا ہے۔ دارالحکومت کابل سے تقریبا ً130 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع شہر غزنی پر بھی جنگجوؤں نے جمعرات کو ہی قبضہ کر لیا تھا۔

Afghanistan Taliban-Kämpfer posiert mit seinem Motorrad
تصویر: Gulabuddin Amiri/ASSOCIATED PRESS/picture alliance

امریکی افواج کے انخلا کے ساتھ ہی طالبان کے شدید حملے جاری ہیں اور ملک کے متعدد علاقوں میں ان کی پیشقدمی بھی جاری ہے۔ جس تیزی سے طالبان آگے بڑھ رہے ہیں اس پر بہت سے دفاعی تجزیہ کار بھی حیرت زدہ ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ اگر یہی صوت حال رہی تو طالبان بہت جلد کابل کا محاصرہ کر لیں گے۔ 

اطلاعات کے مطابق جنوبی صوبے ہلمند کے دارالحکومت لشکر گاہ پر بھی طالبان نے تقریبا ًاپنا کنٹرول مکمل کر لیا ہے تاہم ابھی اس کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہو پائی ہے۔ اس علاقے میں گزشتہ کئی روز سے لڑائی جاری ہے۔ اس وقت افغانستان کے تقریباً ایک تہائی صوبائی درالحکومت طالبان کے قبضے میں ہیں۔

امریکا اور برطانیہ کا فوج دوبارہ بھیجنے کا فیصلہ

امریکا کا کہنا ہے کہ وہ تقریباً تین ہزار امریکی فوجی دوبارہ کابل بھیج رہا ہے تاکہ امریکی سفارت خانے میں موجود عملے کا محفوظ طریقے سے انخلا کیا جا سکے۔ کابل میں امریکی حکام کی ایک بڑی تعداد اب بھی موجود ہے اور امریکا انہیں وہاں سے بعض مخصوص فلائٹس کے ذریعے نکالنے کی کوشش میں ہے۔ 

امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون کا کہنا تھا کہ آئندہ 24 سے 48 گھنٹوں کے دوران تقریبا ًتین ہزار امریکی فوجی کابل پہنچ جائیں گے، لیکن ترجمان نے اس بات پر زور دیا کہ ان اضافی فورسز کو طالبان کے خلاف استعمال کرنے کے لیے نہیں بھیجا جا رہا ہے بلکہ اس کا مقصد امریکی شہریوں کا محفوظ انخلا ہے۔

امریکی دفتر خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے بھی اس بارے میں صحافیوں سے بات چیت میں کہا کہ کابل میں امریکی سفارت خانہ کام کرتا رہے گا لیکن، ''سکیورٹی کی تبدیل ہوتی صورت حال کے پیش نظر وہاں پر موجود دیگر امریکی شہریوں کی تعداد میں کمی کی جا رہی ہے۔''

Afghanistan Taliban erobern Herat
تصویر: AFP

ادھر برطانیہ نے بھی اپنے تقریباً 600 فوجیوں کو مختصر وقت کے لیے کابل دوبارہ بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔ حکام کے مطابق یہ فوجی افغانستان سے نکلنے والے برطانوی شہریوں کی مدد کے لیے بھیجے جا رہے ہیں۔ اس دوران برطانیہ نے کابل میں اپنے سفارتی عملے کی تعداد بھی کافی کم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

امریکا کا سفارتی کوششوں پر زور      

ایک ایسے وقت  جب طالبان بہت تیزی سے فتوحات حاصل کر رہے ہیں امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلینکن نے مسئلے کے سفارتی حل پر پھر سے زور دیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ جمعرات کے روز امریکی وزير دفاع لوائیڈ آسٹن اور انہوں نے افغان صدر اشرف غنی سے اہم امور پر بات چیت کی ہے۔

   انہوں نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا، "ہم نے سکیورٹی کی موجودہ صورتحال اور کابل میں اپنے شہریوں کی تعداد  کم کرنے کے  امریکی منصوبوں پر تبادلہ خیال کیا۔ میں نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ امریکا تنازعے کے سفارتی حل اور افغان عوام کے ساتھ اپنی پائیدار شراکت داری کی حمایت کے لیے پر عزم ہے۔"

ص ز/ ج ا (اے پی، اے ایف پی، روئٹرز)         

قندھار :جنگ کے باعث ہزاروں خاندان نقل مکانی پر مجبور

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں